**** تبدیلیاں****معزز بھٹہ مالکان و اس انڈسٹری سے جڑے تمام افراد ... اسلام و علیکم....تبدیلی ایک دم سے نہیں آتی ،تبدیلی کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے بھونچال آنے کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن جب تبدیلی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے...آج کی اس تحریر میں ہم ان تبدیلیوں پر بھی بات کریں گے جو وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور ان پر بھی بات کریں گے جو ممکنہ طور پر آگے آئیں گی..سب سے پہلے اگر ہم ایجادات کو دیکھیں تو پرانے زمانوں میں پیغام رسانی کے لیے خط و کتابت کا سہارا لیا جاتا تھا جس میں مہینوں درکار ہوتے تھے پھر لینڈ لائن ٹیلی فون کی ایجاد ہوئی تو یہ کام منٹوں میں ہونے لگا پھر موبائیل فون ایجاد ہوا تو کام اور بھی آسان ہو گیا اور اب موبائیل فون کی جگہ سمارٹ فون نے لے لی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا ہماری جیب میں ہے ہم آواز کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں سوچیے کیا ہوتا اگر ہم اجتہاد کو اپناتے ہوئے تبدیلی کو ترجیع نا دیتے اور اسی خط و کتابت کو چپکے رہتے تو آج زندگیوں میں اتنی آسانی نا ہوتی...یہ تو ایک سادہ سی مثال ہے اور اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں چونکہ ہمارا موضوع بھٹہ انڈسٹری ہے تو ہم اسی کی تبدیلیوں کی بات کریں گے..تقریباً پرانے وقتوں میں اینٹیں زیادہ تر بھٹیوں میں پکائی جاتی تھی اور وہاں پر اینٹیں پکانے کی کیپیسٹی محدود ہوتی تھی ..پھر ان بھٹیوں کی جگہ بڑے بھٹوں نے لی جن میں زیادہ اینٹیں بنانے کی صلاحیت تھی یقیناً جب بھٹیوں سے بڑے بھٹے پر تبدیلی کو ترجیع دی گئی ہو گی تو بھٹیوں کی نسبت بھٹوں میں مال ضرور خراب ہوا ہو گا کیونکہ اس وقت اتنی زیادہ تعداد میں اینٹوں کو پکانے کا تجربہ موجود نہیں تھا تو نقصان بھی ضرور ہوتا رہا ہو گا ناتجربہ کاری کی وجہ سے ...لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے نقصان پر برا بھلا کسے کہا گیا ہو گا..اس کے بعد جب بھٹے آ گئےتو اس میں بھی بہت سی تبدیلیاں آئی..پہلے بھٹوں کی چمنیاں فکس نہیں ہوتی تھی اور انہیں ایک جگہ سے اٹھا کے دوسری جگہ رکھ دیا جاتا تھا پھر ان چمنیوں کی جگہ فکسڈ چمنیوں نے لی جنہیں ایک مخصوص جگہ پر تعمیر کیا جاتا ہے اور انہیں بار بار تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیا ہوتا اگر ہم انہیں پرانی چمنیوں کو چپکے رہتے اور فکسڈ چمنی پر تبدیلی کو ترجیع نا دیتے..اب ان فکسڈ چمنیوں کی جگہ بھی بلور نے لے لی ہے اور جو لوگ اس تبدیلی کو اپنا چکے ہیں وہ ضرور جانتے ہیں کہ کس طرح سے بلور نے چمنیوں کی پریشانی سے جان چھڑا دی ہے...وضاحت کرتا چلوں کہ میں نے بلور کو زگ زیگ سے منسوب نہیں کیا بلکہ اسکا تعلق آپکی چمنی سے ہے جو کام روائتی چمنیاں نہیں کر سکتی وہ بلور کر سکتا ہے اور چمنی اپنی مرضی کے مطابق کام کرتی ہے جبکہ بلور آپکی مرضی اور ضرورت کے مطابق کام کرتا ہے یقیناً یہ تبدیلی بھٹہ انڈسٹری کے بہت سے مسائل کا حل ہے..اب بات کرتے ہیں بھرائی کی..بھرائی میں بھی بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں.جو کچھ مجھے تحقیق سے حاصل ہوا میں انکی بات کروں گا ہو سکتا ہے لکھے گئے طریقوں سے بھی زیادہ طریقے رائج رہے ہوں.. پہلے پہل بھٹوں پر نمبری بھرائی رائج تھی اور اسکا طریقہ بہت سادہ تھا دو پایوں کے درمیان بہت سی خالی جگہ چھوڑ دی جاتی تھی جس میں لکڑی جلائی جاتی تھی ..لکڑی کے علاوہ کوئی میٹیریل اس بھرائی میں نہیں جلایا جاتا تھا..وہ بھرائی انتہائی خطرناک ہوتی تھی اور بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی تھی.اس کے بعد پاکٹی بھرائی کا طریقہ رائج ہوا ،نمبری بھرائی سے جیسے ہی پاکٹی بھرائی شروع کی گئی تو لوگ آہستہ آہستہ اسے سمجتے اور اپناتے گئے..نمبری بھرائی اور پاکٹی کا موازنہ کریں تو پاکٹی کافی حد تک محفوظ ہو گئی کیونکہ پایوں کے درمیان جو خلا ہوتا تھا اسے پاکٹوں نے پر کر دیا مذید یہ کہ بھٹے میں مال بھی زیادہ پکنے لگا لیکن ساتھ ساتھ نقصان بھی بڑھ گیا..نقصان اس لیے کہ ناتجربہ کاری تھی سمجنے میں وقت لگ گیا..آج بھی لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا لاکھوں کا نقصان ہو گیا وجہ پوچھی جائے تو کہا جاتا ہے کہ چمنی ٹھیک نہیں ہے یا بھرائی ٹھیک نہیں..نمبری بھرائی سے پاکٹی پر تبدیلی اور اسے سیکھتے سیکھتے ابھی تک بھی لوگوں کا نقصان ہو جاتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کسی فرد کو برا بھلا کہنے کے بجائے چمنی یا بھرائی کا نقص نکالا جاتا ہے..مذید آگے چلتے ہیں نمبری سے جب پاکٹی پر تبدیلی مکمل ہوئی تو اب پاکٹی سے بہتر زگ زیگ بھرائی آ گئی ہے..ابھی بنیادی سوال یہ ہے کہ زگ زیگ میں پاکٹی سے بہتر کیا ہے..یہ بتاتے ہوئے تو زمانہ بیت گیا لیکن ہر بار سمجھنے والوں کی تعداد میں کچھ نا کچھ اضافہ ہو جاتا ہے اسی لیے ایک بار اور سہی...زگ زیگ کا سب سے اہم فائدہ تو یہ ہے کہ آپ اپنی مرضی تک اینٹ تیار کر سکتے ہو آپ چاہیں تو پہلے کی طرح روزانہ تیس ہزار اینٹ تیار کریں آپ چاہیں تو روزانہ ایک لاکھ اینٹ تیار کریں..بھرائی کے بہتر پیٹرن کی وجہ سے فی پائے میں اینٹوں کی کیپیسٹی بڑھ جاتی ہے اور بھٹے کے پائیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے..اس سے اہم یہ کہ زگ زیگ بھرائی ہی ہے جو ایمیشنز کو کنٹرول کرتی ہے وجہ یہ کہ ہر پانچ پائیوں کے بعد لگے چیمبر آگ کو فل کیپیسٹی میں روکے رکھتے ہیں اور کاربن کے زرات مکمل طور پر جل جاتے ہیں ..اور سب سے اہم اور فائدہ مند بات یہ ہے کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اگر آپکا مال خراب ہو گیا تو کچھ ایسے افراد بھی موجود ہے جنہیں آپ برا بھلا کہہ سکتے ہیں یہ سہولت سابقہ کسی بھی تبدیلی میں میسر نہیں رہی...جہاں تک آنے والی تبدیلیوں کی بات ہے تو ہم اب بھی باقی دنیا سے پیچھے ہیں کہ دنیا ٹنل طریقہ کار اور اس سے بھی آگے کی کھوج میں ہے...یہ تو طے ہےتبدیلی ایک دم سے نہیں آتی ،تبدیلی کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے بھونچال آنے کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن جب تبدیلی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے...محمد عمران سیال......

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

***فائدہ درحقیقت نقصان****بعض اوقات پیسہ بنانے کا شوق انسان کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیتا ہے انسان اپنے مفاد سے آگے کچھ نہیں سوچ رہا ہوتا لیکن حقیقت میں اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے...بات شروع ہوتی ہے سال 2017 سے جب بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں نے سموگ کی آڑ میں اس انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ اٹھا لیا.انڈسٹری کے مجموعی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نے بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں کو ایکسپوز کر دیا..مجھے لگتا ہے قارئین کو مذید تفصیل درکار ہو گی..ہوا کچھ یوں کے سموگ نے جب حکومت کو پریشان کرنا شروع کیا تو انہوں نے باقی انڈسٹریوں کے ساتھ ساتھ بھٹہ انڈسٹری سے متعلق بھی اپنے خدشات ظاہر کرنا شروع کر دیے...اس موقع پر بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ ہم اس کے سدباب کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں..نمائندوں نے ایک ماحولیاتی تنظیم کے زریعے حکومت کو زگ زیگ بھٹوں اور ان کی افادیت سے متعلق آگاہ کیا..بس پھر کیا تھا حکومت نے زگ زیگ کو بنیاد بنا کر اس انڈسٹری سے متعلق اپنی پالیسی مرتب کی اور یہ جاننے کی کوشش تک نا کی کہ واقعی نمائندوں کے تجویز کردہ ان بھٹوں کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں..حقیقت میں زگ زیگ لانے کا مقصد یہ انڈسٹری جاگیرداروں کے حوالے کرناتھا ایسامیں کیوں کہہ رہا ہوں یہ آپکو آگے سمجھ آئے گا.. حکومت نے بھٹہ مالکان کو تمام بھٹے جلد از جلد زگ زیگ پر کنورٹ کرنے کا آرڈر دے دیا اور ایسا نا کرنے کی صورت میں سخت سے سخت نتائج کا بتایا جاتا رہا..ہر سال بھٹہ مالکان کی کچھ تعداد محکمے کے خوف سے اپنے بھٹے زگ زیگ پر کنورٹ کرتی رہی اور بیشتر کڑوڑوں کا نقصان اٹھا بیٹھے...مختصر یہ کہ محکمہ ہر سال بغیر کسی تحقیق کے زگ زیگ پر جبراً منتقلی کرانے کی کوشش میں رہا اور بھٹہ مالکان اپنا نقصان کرتے رہے..محکمے کو انڈسٹری کے نمائندوں کی بھرپور حمایت رہی..آخر کار زگ زیگ کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور امجد خان جگوال نےمحکمے کی اس پالیسی کے خلاف علم بغاوت بلندکیا.جگوال صاحب نے ہر فورم پر اس پالیسی کا مقابلہ کیا اور بھٹہ مالکان جوق در جوق ان کے قافلے میں شامل ہوتے گئے.ٹی وی انٹر ویوز،پریس ریلیز اور سوشل میڈیا کے زریعے بھرپور آگاہی مہم چلائی گئی.بھر پور محنت کے زریعے امجد خان جگوال اور انکی ٹیم محکمے کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئی کہ زگ زیگ اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ انڈسٹری کے خاتمے کی وجہ قرار پائے گا کہ ہر بھٹہ مالک اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کڑوڑوں کا نقصان برداشت کر سکے ایسا صرف وہی کر سکتے ہیں ہیں جو اربوں روپے رکھتے ہوں نتیجتاً یہ انڈسٹری جاگیرداروں کی گود میں جانے کا اندیشہ پیدا ہوا اوراسی تناظر میں زگ زیگ کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی..سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ جس بنا پر یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں لائی گئی کہ زگ زیگ بھٹے گرین ہاؤس گیسز کا کم اخراج کرتے ہیں جھوٹ ثابت ہوئی..زگ زیگ اور بی ٹے کی میں گیسز کا تقابلی جائزہ تقریباً برابر رہا...مطلب بغیر تحقیق کے عجلت میں یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں مسلط کرا کے بھٹہ مالکان اور انڈسٹری کو کڑوڑں کا نقصان پہنچایا گیا..اب اس ٹیکنالوجی کو پاکستان میں ناکام قرار دیا جا رہا ہے لیکن بھٹہ مالکان کا نقصان واپس نہیں ہو سکتا..حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ نے آرڈر دیا ہے کہ بھٹوں کو دو ماہ کے لیے بند کر دیا جائے شنید ہے کہ زگ زیگ کے مستقبل کے حوالے سے بھی ایسے فیصلے کا امکان ہے کہ یہ بھٹے کسی طور بھی پرانے بھٹوں سے ایڈوانس نہیں..یہ بات محکمے کو دیر سے سمجھ آ رہی ہے..وقتی طور پر سموگ سے نمٹنے کے لیے دو ماہ بھٹوں کو بند کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مستقبل میں کثیر تعدادمیں شجر کاری ہی اس مسئلے کا حل ہے نا کہ زگ زیگ..ایسے میں جو لوگ صرف اس لیے زگ زیگ پر منتقل ہوئے کہ پرانے بھٹے بند ہونے سے وہ بہت منافع کما لیں گے ایسے بھٹہ مالکان خسارے میں رہیں گے..بعض اوقات پیسہ بنانے کا شوق انسان کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیتا ہے انسان اپنے مفاد سے آگے کچھ نہیں سوچ رہا ہوتا لیکن حقیقت میں اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے...محمد عمران سیال..

مرکزی قیادت کا کامیاب دورہ ملتان،،، برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے مرکزی وائس چیئرمین مہرعبدالحق صاحب لاہور ڈویژن کے صدر رانا سبحان صاحب بروکس پاکستان کے کنٹری منیجر نعیم عباس شاہ صاحب 4روزہ دورہ ملتان ۔مکمل کرکے لاہور روانہ ہوگئے یہ دورہ جانوروں کی حققوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم بروکس پاکستان کے زیراہتمام پاکستان میں بھٹوں پر کام کرنے والے جانوروں کے تحفظ اور علاج معالجے پر کام کررہی ہے جو دو روز لگار تار رمادا ہوٹل ملتان میں جاری رہا پہلے روز اجلاس میں ملتان کے بھٹہ مالکان شریک ہوے اور بروکس پاکستان کے مشن کو سمجھا اور اس پر اسی دن عمل شروع کیا دوسرے دن جنوبی پنجاب کے اضلاع کے بھٹہ مالکان اجلاس میں شریک ہوے اور بروکس پاکستان کے موقف کو سمجھا اور ان کے مشن کو اپنانے کا اعادہ کیا یہ دورہ بروکس پاکستان کے ساتھ ساتھ برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے قائدین کیلئے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان سے تنظیمی اور زگ زیگ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم ثابت ہوا جہاں بروکس پاکستان کے مشن کو بھٹہ مالکان نے سمجھا وہی برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن اور اس کی افادیت کو اور زگ زیگ ٹیکنالوجی کو سیکھنے سمجھنے کیلئے قیادت کی جانب سے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان کو ہرممکن تعاون کی پیشکش کی گئی جیسے بھٹہ مالکان کی جانب سے بہت سراہا گیا اس کے علاوہ ملتان میں تنظیمی حوالے سے دورہ بھی کیے جس میں ملتان میں اظہرخان کا نئے تعمیر ہونے والے ملتان کے ماڈل زگ زیگ بھٹے کا افتتاح کیا گیا اور ملتان اور جنوبی پنجاب سے آے بھٹہ مالکان سے انکے اضلاع میں بھٹہ انڈسٹری کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی اور بہتر منصوبے زیر غور آے اس کے علاوہ شجاع آباد میں خضرخان جگوال صاحب کے ماڈل زگ زیگ بھٹے کا وزٹ کیا اور وہاں پر شجاع آباد سے بھٹہ انڈسٹری کی اہم شخصیت شجاع آباد کی پہچان انعام اللہ خان مگسی صاحب سے رات کے کھانے پر خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی اور ملتان اور اردگرنواح میں بھٹہ مالکان کے مسائل پر اہم مشاورت ہوئی اور ایک دوسرے کے تجربات سے استعفادہ حاصل کیا لہذا ہم اسے برک کلن اونرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مرکزی قیادت کا ملتان کا کامیاب دورہ قرار دیتے ہیں کہ کم وقت میں بہت زیادہ ورک کیا گیا جو قابل تحسین ہے ہم برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے قائدین اور بروکس پاکستان کے نعیم عباس شاہ صاحب کو ملتان آمد اور جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان کو تنظیمی و فلاحی آگاہی دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، منجانب،، برک کلن اونرز ایسوسی ایشن ملتان رپورٹ اظہرخان