**** تبدیلیاں****معزز بھٹہ مالکان و اس انڈسٹری سے جڑے تمام افراد ... اسلام و علیکم....تبدیلی ایک دم سے نہیں آتی ،تبدیلی کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے بھونچال آنے کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن جب تبدیلی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے...آج کی اس تحریر میں ہم ان تبدیلیوں پر بھی بات کریں گے جو وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور ان پر بھی بات کریں گے جو ممکنہ طور پر آگے آئیں گی..سب سے پہلے اگر ہم ایجادات کو دیکھیں تو پرانے زمانوں میں پیغام رسانی کے لیے خط و کتابت کا سہارا لیا جاتا تھا جس میں مہینوں درکار ہوتے تھے پھر لینڈ لائن ٹیلی فون کی ایجاد ہوئی تو یہ کام منٹوں میں ہونے لگا پھر موبائیل فون ایجاد ہوا تو کام اور بھی آسان ہو گیا اور اب موبائیل فون کی جگہ سمارٹ فون نے لے لی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا ہماری جیب میں ہے ہم آواز کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں سوچیے کیا ہوتا اگر ہم اجتہاد کو اپناتے ہوئے تبدیلی کو ترجیع نا دیتے اور اسی خط و کتابت کو چپکے رہتے تو آج زندگیوں میں اتنی آسانی نا ہوتی...یہ تو ایک سادہ سی مثال ہے اور اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں چونکہ ہمارا موضوع بھٹہ انڈسٹری ہے تو ہم اسی کی تبدیلیوں کی بات کریں گے..تقریباً پرانے وقتوں میں اینٹیں زیادہ تر بھٹیوں میں پکائی جاتی تھی اور وہاں پر اینٹیں پکانے کی کیپیسٹی محدود ہوتی تھی ..پھر ان بھٹیوں کی جگہ بڑے بھٹوں نے لی جن میں زیادہ اینٹیں بنانے کی صلاحیت تھی یقیناً جب بھٹیوں سے بڑے بھٹے پر تبدیلی کو ترجیع دی گئی ہو گی تو بھٹیوں کی نسبت بھٹوں میں مال ضرور خراب ہوا ہو گا کیونکہ اس وقت اتنی زیادہ تعداد میں اینٹوں کو پکانے کا تجربہ موجود نہیں تھا تو نقصان بھی ضرور ہوتا رہا ہو گا ناتجربہ کاری کی وجہ سے ...لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے نقصان پر برا بھلا کسے کہا گیا ہو گا..اس کے بعد جب بھٹے آ گئےتو اس میں بھی بہت سی تبدیلیاں آئی..پہلے بھٹوں کی چمنیاں فکس نہیں ہوتی تھی اور انہیں ایک جگہ سے اٹھا کے دوسری جگہ رکھ دیا جاتا تھا پھر ان چمنیوں کی جگہ فکسڈ چمنیوں نے لی جنہیں ایک مخصوص جگہ پر تعمیر کیا جاتا ہے اور انہیں بار بار تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیا ہوتا اگر ہم انہیں پرانی چمنیوں کو چپکے رہتے اور فکسڈ چمنی پر تبدیلی کو ترجیع نا دیتے..اب ان فکسڈ چمنیوں کی جگہ بھی بلور نے لے لی ہے اور جو لوگ اس تبدیلی کو اپنا چکے ہیں وہ ضرور جانتے ہیں کہ کس طرح سے بلور نے چمنیوں کی پریشانی سے جان چھڑا دی ہے...وضاحت کرتا چلوں کہ میں نے بلور کو زگ زیگ سے منسوب نہیں کیا بلکہ اسکا تعلق آپکی چمنی سے ہے جو کام روائتی چمنیاں نہیں کر سکتی وہ بلور کر سکتا ہے اور چمنی اپنی مرضی کے مطابق کام کرتی ہے جبکہ بلور آپکی مرضی اور ضرورت کے مطابق کام کرتا ہے یقیناً یہ تبدیلی بھٹہ انڈسٹری کے بہت سے مسائل کا حل ہے..اب بات کرتے ہیں بھرائی کی..بھرائی میں بھی بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں.جو کچھ مجھے تحقیق سے حاصل ہوا میں انکی بات کروں گا ہو سکتا ہے لکھے گئے طریقوں سے بھی زیادہ طریقے رائج رہے ہوں.. پہلے پہل بھٹوں پر نمبری بھرائی رائج تھی اور اسکا طریقہ بہت سادہ تھا دو پایوں کے درمیان بہت سی خالی جگہ چھوڑ دی جاتی تھی جس میں لکڑی جلائی جاتی تھی ..لکڑی کے علاوہ کوئی میٹیریل اس بھرائی میں نہیں جلایا جاتا تھا..وہ بھرائی انتہائی خطرناک ہوتی تھی اور بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی تھی.اس کے بعد پاکٹی بھرائی کا طریقہ رائج ہوا ،نمبری بھرائی سے جیسے ہی پاکٹی بھرائی شروع کی گئی تو لوگ آہستہ آہستہ اسے سمجتے اور اپناتے گئے..نمبری بھرائی اور پاکٹی کا موازنہ کریں تو پاکٹی کافی حد تک محفوظ ہو گئی کیونکہ پایوں کے درمیان جو خلا ہوتا تھا اسے پاکٹوں نے پر کر دیا مذید یہ کہ بھٹے میں مال بھی زیادہ پکنے لگا لیکن ساتھ ساتھ نقصان بھی بڑھ گیا..نقصان اس لیے کہ ناتجربہ کاری تھی سمجنے میں وقت لگ گیا..آج بھی لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا لاکھوں کا نقصان ہو گیا وجہ پوچھی جائے تو کہا جاتا ہے کہ چمنی ٹھیک نہیں ہے یا بھرائی ٹھیک نہیں..نمبری بھرائی سے پاکٹی پر تبدیلی اور اسے سیکھتے سیکھتے ابھی تک بھی لوگوں کا نقصان ہو جاتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کسی فرد کو برا بھلا کہنے کے بجائے چمنی یا بھرائی کا نقص نکالا جاتا ہے..مذید آگے چلتے ہیں نمبری سے جب پاکٹی پر تبدیلی مکمل ہوئی تو اب پاکٹی سے بہتر زگ زیگ بھرائی آ گئی ہے..ابھی بنیادی سوال یہ ہے کہ زگ زیگ میں پاکٹی سے بہتر کیا ہے..یہ بتاتے ہوئے تو زمانہ بیت گیا لیکن ہر بار سمجھنے والوں کی تعداد میں کچھ نا کچھ اضافہ ہو جاتا ہے اسی لیے ایک بار اور سہی...زگ زیگ کا سب سے اہم فائدہ تو یہ ہے کہ آپ اپنی مرضی تک اینٹ تیار کر سکتے ہو آپ چاہیں تو پہلے کی طرح روزانہ تیس ہزار اینٹ تیار کریں آپ چاہیں تو روزانہ ایک لاکھ اینٹ تیار کریں..بھرائی کے بہتر پیٹرن کی وجہ سے فی پائے میں اینٹوں کی کیپیسٹی بڑھ جاتی ہے اور بھٹے کے پائیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے..اس سے اہم یہ کہ زگ زیگ بھرائی ہی ہے جو ایمیشنز کو کنٹرول کرتی ہے وجہ یہ کہ ہر پانچ پائیوں کے بعد لگے چیمبر آگ کو فل کیپیسٹی میں روکے رکھتے ہیں اور کاربن کے زرات مکمل طور پر جل جاتے ہیں ..اور سب سے اہم اور فائدہ مند بات یہ ہے کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اگر آپکا مال خراب ہو گیا تو کچھ ایسے افراد بھی موجود ہے جنہیں آپ برا بھلا کہہ سکتے ہیں یہ سہولت سابقہ کسی بھی تبدیلی میں میسر نہیں رہی...جہاں تک آنے والی تبدیلیوں کی بات ہے تو ہم اب بھی باقی دنیا سے پیچھے ہیں کہ دنیا ٹنل طریقہ کار اور اس سے بھی آگے کی کھوج میں ہے...یہ تو طے ہےتبدیلی ایک دم سے نہیں آتی ،تبدیلی کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے بھونچال آنے کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن جب تبدیلی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے...محمد عمران سیال......

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

*بھادوں کی حیرت انگیز معلومات

*****اختلاف *****محترم بھٹہ مالکان اسلام علیکم.....!اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..اس تحریر میں میری مخاطبیت نادان دوستوں سے ہے، ہیں یہ ہمارے اپنے ہی لیکن اغیار کی غلطیوں کا سہرہ اپنے سر لینے پر تلے ہوئے ہیں..بہرحال ایک دوست نے ہمیں مہر و نیازی صاحب کی خوبیوں سے روشناس کرایا تو دل میں احساس ہوا کہ اتنے مہربان لوگوں کو ہم غلط کیوں کہہ رہے ہیں اچانک سے اس دوست کی تحریر ختم ہوئی اور میرے دل کے بجائے دماغ نے سوچنا شروع کیا ،جذباتیت کے بجائے بھٹہ انڈسٹری کا مفاد میرے سامنے آیا اور میں نے باتوں کے بجائے حقیقت ڈھونڈنے کی کوشش کی آئیے آپکو بھی حقیقتوں سے آگاہ کریں.....1987 میں جب بھٹہ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی تو نیازی صاحب ہی صدر سلیکٹ کیے گئے اور واقعتا ً 1994 اور 2011 میں ایسوسی ایشن نے بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کا تحفظ کیا ان مواقع پر بھٹہ مالکان کا تمام تر تعاون نیازی صاحب کے ساتھ رہا..اجتماعی کوششوں سے بھٹہ مالکان نے ریلیف حاصل کیا...ان موقعوں پر نیازی صاحب نے نڈر طریقے سے بھٹہ انڈسٹری کا دفاع کیا اور بھٹہ مالکان کی طرف سے انکے ہاتھ ہمیشہ مضبوط کیے گئے کسی بھی طرح کی مخالفت دیکھنے کو نہیں ملی..ایسی ہی جرات کی ضرورت 2017 میں بھی پیش آئی لیکن اب کی بار نیازی صاحب نے سرنڈر کر دیا اور بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کو پس_پشت ڈال دیا..کیسے؟ یہ بھی آپکو بتاتے ہیں..>اب کی بار وہی سیلز ٹیکس حکومت پھر سے نافذ کرنا چاہتی تھی جسے پہلے دو بار نیازی صاحب بھٹہ مالکان کی سپورٹ کی وجہ سے ختم کرا چکے تھے..لیکن اس بار نیازی صاحب نے بھٹہ انڈسٹری کی آواز بننے کے بجائے حکومت کا ساتھ دینا مناسب سمجھا..اب کی بار انہوں نے بھٹہ مالکان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ سیلز ٹیکس دینا چاہیے ..اگر نیازی صاحب ہی کی بات مان لی جائے تو پہلے انہوں نے دو بار اس ضروری امر کو کیوں منسوخ کرایا؟سچ تو یہ ہے کہ نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا..>اب کی بار نیازی صاحب و ہمنوا بھٹہ مالکان کو گمراہ بھی کرنے لگے..زگ زیگ کے معاملے پر پہلے کہا گیا کہ یہ ٹیکنالوجی حکومت کی طرف سے زبردستی لائی گئی ہے پھر نمبر بنانے کے لیے کہا گیا کہ ہم خود لائے.. بھٹہ مالکان کی مزاحمت کی وجہ سے پھر بیانیہ بدلا اور کہا کہ حکومت کا پریشر ہے اور زگ زیگ ہی لگانے پڑیں گے پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح آپ لوگوں نے سیلز ٹیکس پر حکومتوں کی مخالفت کر کے اپنے مطالبات منوائے اب ایسا کیوں نا ہو سکا..اب آپ نے بھٹہ انڈسٹری کے مفاد کی خاطر حکومتی پریشر کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟سچ تو یہ ہے نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا...آی سی آئی موڈ کی کہانی الگ سے ہے اس کے لیے اور وقت مقرر کر لیں گے..>سوشل سیکیورٹی ،علیحدہ سے انکم ٹیکس،چائلڈ لیبر ایکٹ کے علاوہ بہت سے مسائل کا پچھلے چند سالوں سے بھٹہ مالکان سامنہ کر رہے ہیں لیکن آپ حکومتی پریشر کا نام دے کر چپ ہی رہے.ان چند سالوں میں بھٹہ مالکان کا امیج بری طرح متاثر ہوا اور بھٹہ انڈسٹری کاروباری مرکز سے زیادہ بلیک میلرز کا نام اختیار کر گئی...ان نامسائد حالات میں امجد خان جگوال نے کمان سنمبھالی اور بھٹہ انڈسٹری کو بچانے کا عزم کیا..>اسی امجد خان جگوال نے آپ کی خاموشی کے باوجود سیلز ٹیکس ختم کرایا اور حکومتی احکامات و پریشر کے باوجود ابھی تک نافذالعمل نہیں کرایا جا سکا..>اسی جگوال نے زگ زیگ کے معاملے پر حکومتی پریشر کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور ابھی تک کر رہا ہے.زگ زیگ سے متعلق اسی جگوال کے مطالبات کو اب آپ اپنے مطالبات بنا کر پیش کر رہے ہیں.>اسی جگوال نے سالوں سے چلے آنے والے کوئلہ کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کیے..کوئلہ والوں کے ساتھ انہی مذاکرات کی بنیاد پر انہیں ایجنٹ کہا گیا لیکن جگوال کول مائنز اونرز سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہا..الغرض بھٹہ انڈسٹری کی کمان اب نڈر لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو انڈسٹری کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں حکومتی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے..اب بات کرتے ہیں نیازی صاحب کے ایسوسی ایشن کے لیے کڑوڑوں روپے خرچ کرنے کی..سوال یہ ہے نیازی صاحب نے کڑوڑوں روپے کہاں خرچ کیے؟کیا وہ ایسوسی ایشن کے ایونٹس منعقد کرتے رہے ہیں ایسا تو سالوں میں ایک بار ہوتا ہے..!کیا انہوں نے ایسوسی ایشن کے نام پر کوئی فلاحی مرکز کھول رکھا ہے کوئی ہسپتال یا سکول؟کیا مختلف تحریکوں میں خرچے گئے ہیں؟ نہیں تحریکوں میں تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شریک ہوئے...!تو پھر کڑوڑوں روپے کہاں خرچے گئے جبکہ ایسوسی ایشن کی سالانہ آمدنی کروڑوں میں ہے...!کیسے؟ جان لیتے ہیں....پاکستان کے ٹوٹل 154 اضلاع ہیں..ہم صرف پنجاب کی بات کرتے ہیں..پنجاب کے ٹوٹل 36 اضلاع ہیں...مہر صاحب کے آڈیو بیان کے مطابق ہر ضلعی صدر ہر ماہ 50000 روپےفنڈ ایسوسی ایشن کو جمع کرائے ورنہ اسے اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا..اس حساب سے 36*50000=1800000تقریباً اٹھارہ لاکھ ماہانہ بنتے ہیں جبکہ 1800000*12=21600000سالانہ تقریبا٘ دو کروڑ سولہ لاکھ بنتے ہیں..یہ صرف پنجاب کا فنڈ ہے مہر صاحب کے مطابق...باقی صوبوں کا علاوہ....آخر یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں ..کوئی فلاحی کام ہی کر لیں ان پیسوں سے...آئندہ سے نیازی صاحب کے کروڑوں روپے لگانے کی بات نا کیجیے گا حساب کتاب دینا پڑ جائے گا...یہ تو تھے قومی حقائق اب اپنے نادان دوستوں کو مقامی حقائق سے آگاہ کرتے ہیں...پہلے بھی کئی بار بتا چکے ہیں ایک بار اور صیح...نذر خان صاحب ملتان میں مہر ونیازی صاحب کے نمائندے ہیں(بھٹہ مالکان کے نہیں)..ملتان کی تحصیل جلالپور کے 100 سے زائد بٹھے ہیں..ان میں سے بیشتر مالکان نذر خان صاحب کے نام سے بھی واقف نہیں صدر ماننا تو دور..تحصیل شجاعباد کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے..ان دونوں تحصیلوں کے ڈھائی سو بھٹہ مالکان میں نذر خان صاحب کا ایک بھی نام لیوا نہیں..باقی اوورآل ملتان میں تقریباً چار سو بھٹہ مالکان میں سے پندرہ سے سولہ بھٹہ مالکان نذر صاحب کے ہمنوا ہیں باقی تناسب آپ خود دیکھ لیں..باقی پورا ملتان عمر فاروق صاحب کی قیادت پر متفق ہے....باقی نادان دوستو کو مہر و نیازی صاحب نے اس لیے آگے کیا ہوا ہے کہ باقی ملک میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ انکی تو اپنے شہر میں گرفت نہیں..باقی حقائق میں نے آپ کے سامنے رکھ دیے.. اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..محمد عمران سیال....!