***بہروپ اور کردار ***معزز بھٹہ مالکان اسلام علیکم.....!آخر بھٹہ انڈسٹری ہی کیوں حکومتی مذاق کا شکار ہے؟آخر کیا وجہ ہے بھٹوں سے متعلق فیصلے دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں ہونے لگ پڑے؟کون ایسے کردار ہیں جو بھٹہ انڈسٹری کو یرغمال رکھنا چاہتے ہیں؟کون ہیں جو بھٹہ مالکان کے نقصان اور ملکی معاشی استحکام کے خلاف کام کر رہےہیں؟کون ہیں جو ظاہری طور پر محب_وطن جبکہ اندرونی طور پر ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟ٹھہریے یہ سب کردار آشکار ہونے والے ہیں ہم انہیں انکے بہروپ سمیت پہچان چکے ہیں باقی نا سمجھنے والے دوست بھی تب انہیں جان جائیں گے جب یہ تنگی_سانس کی بدولت اپنے چہروں سے ماسک اتاریں گیں......!بہرحال آپکو یاد ہو گا پچھلے سال محکموں نے پنجاب کے اضلاع کو بھٹوں کے حوالے سے مختلف زونز میں تقسیم کردیا جن میں گرین زون ،ییلو زون اور ریڈ زون شامل تھے..ریڈ زون ایسے اضلاع تھے جنہیں ڈھائی ماہ کے لیے بند کر دیا گیا اور بھٹہ ایسوسی ایشن کے اس وقت کے نمائندے(مہر و نیازی) بھٹہ مالکان کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ حکومت ٹھیک کہہ رہی ہے ..بھٹوں کا دھواں سموگ کی وجہ ہے ہمیں محکموں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ،یہ ملک ہمارا ہے اس ملک کی فضا ہماری ہے الغرض اس طرح کی بہت سی دلیلیں یہ نمائندے دیتے رہے محکمہ جات نے ان کے انہی بیانات کو کیش کرایا اور بھٹہ انڈسٹری کو اسموگ کی سب سے بڑی وجہ قرار دے دیا گیا ڈھائی ماہ کی بندش سے جو نقصان ہوا اسے چھوڑیے لیکن اس بندش نے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ واقعی بھٹے ہی سموگ کی وجہ ہے اور خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ پچھلے سال(2018) میں سال 2017 کی نسبت کم اسموگ پیدا ہوئی جس کی بڑی وجہ موسم کا ٹھیک ہونا تھا...لیکن بھٹہ بندش نے محکموں کے اس بیانیے کو مضبوط کیا کہ بھٹہ بندش کی وجہ سے اسموگ کم ہوئی اور اسی طرح پچھلے سال یہ تماشہ کامیاب رہا اور ہر فریق(حکومت،محکمے،بھٹہ نمائندے) نے اپنے اپنے حصے کی داد سمیٹی اس ضمن میں بھٹہ ایسوسی ایشن کے سابقہ نمائندوں (مہر و نیازی) نے دو قدم آگے چلتے ہوئےانتہائی عجلت میں بین القوامی این جی او (آئی سی آئی موڈ) کا تجویز کردہ زگ زیگ طریقہ جسے بعد میں نئی ٹیکنالوجی کا نام دے دیا گیا متعارف کروائی..محکموں نے نمائندوں کے اس اقدام کو بھی سراہتے ہوئے زگ زیگ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ..زگ زیگ کا بنیادی مقصد سفید دھویں کا اخراج تھا لیکن یہ طریقہ بری طرح ناکام ہوا اور بلیک سموک کے ساتھ ساتھ اس طریقے نے بھٹہ مالکان کا کڑوڑوں کا نقصان کرایا سوشل میڈیا پر زگ زیگ کے بلیک سموک کی بہت سی ویڈیوز موجود ہیں پھر بھی اس طریقہ کو لانے والے محکمے کے ساتھ مل کر زبردستی عملدرامد اور بھٹہ مالکان کا نقصان کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں.زگ زیگ کی تباہ کاریوں اور ناکامی پر لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن آگے چلتے ہیں..2018 میں زونز کے شوشے کی زبردستی کامیابی کے بعد اس سال بھی وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی..اب بھی سابقہ نمائندے حب الوطنی کا درس دیتے رہے اور بھٹہ انڈسٹری کو اسموگ کا موجب قرار دیتے رہے لیکن اب کی بار ایک مرد مجاہد امجد خان جگوال نے بھٹہ انڈسٹری کے مفاد کی کمان سنبھالی تو پورے پاکستان سے بھٹہ مالکان نے جگوال کی کال پر لبیک کہا..مداح سرائی اس تحریر کا مقصد نہیں بلکہ بھٹہ انڈسٹری کے مفاد کا تحفظ کرنے پر جگوال صاحب کی تحسین کرنا ہے..خیر اب جبکہ بھٹہ انڈسٹری کی طرف سے بھرپور مزاحمت دکھائی گئی تو محکمے نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی شروع کر دی.یوں بھٹہ مالکان کو ریلیف ملتا گیا ایک موقع پرجگوال صاحب کی سیکرٹری ماحولیات کے ساتھ میٹنگ میں جب زونز کے غیر قانونی طریقہ پر بات کی گئی تو انکشاف ہوا کہ سیکرٹری صاحب زون کی تقسیم سے واقف ہی نہیں اور ایسا کوئی آفیشل نوٹیفیکیشن بھی جاری نہیں ہوا..پھر بھٹہ مالکان یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہمارے سابقہ نمائندے جو روز محکمے کے ساتھ میٹنگ کرتے تھے انہیں زونز کی بابت معلومات ہونے کے باوجود بھی انہوں نے بھٹہ مالکان کو تقسیم کیوں کیے رکھا ؟اور اب بھی انکی خاموشی محکمے کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلاتی ہے...اس کے برعکس امجد جگوال ہر محاز پر محکموں اور ان کرداروں کے ساتھ نبرازما ہے...پچھلے دنوں ڈی جی ماحولیات کو جس طرح جگوال نے لاجواب کیا اور نڈر طریقے سے اپنے موقف کا دفاع کیا وہ قابل دید ہے اب اسی مزاحمت کی بدولت بھٹہ انڈسٹری کااسموگ کا موجب ہونے کا تاثر زائل ہو رہا ہے اب ہر دوسرا شخص بھارتی پنجاب اور پاکستان میں فصلوں کی باقیات اور کڑوڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کو سموگ کا مین موجب قرار دے رہا ہے.زگ زیگ پر بھی محکمہ اس بات پر راضی ہے کہ چاہے زگ زیگ نا لگائیں لیکن دھواں سفید کرنے کے لیے اقدامات کریں .کثیر تعداد میں شجر کاری کے موقف کو بھی پذیرائی مل رہی ہے ایسے میں جگوال صاحب کی محنت کی بدولت بھٹہ مالکان کا اعتماد بحال ہو رہا ہے وزیراعلی پنجاب بھی بھٹے بند نا کرنے کے احکامات دے چکے ہیں ...سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے پھر اچانک........!اچانک سے محکمہ ماحولیات کچھ کرداروں کی تجویز پر بھٹے بند کرنے کی سمری وزیراعلی کو ارسال کرتا ہے جسے منظور کر لیا جاتا ہے یہ وہی کردار ہیں جنہیں اب یہ احساس کھائے جا رہا ہے کہ بھٹہ مالکان ہم سے مایوس ہو رہے ہیں لوگ ہمارے پاس نہیں آنا چاہتے ہم سے ناامید ہو رہے ہیں ..اپنی ساکھ اور بادشاہت کا احساس دلانے کے لیے ان کرداروں نے ہفتوں کے بجائے گھنٹوں میں محکمے کو فیصلے کرانے پر مجبور کر دیا ...اپنے تعاون اور امجد جگوال کی مزاحمت کو بنیاد بنا کر محکمے کو بھٹہ بندش پر مجبور کر دیا..آپ کو یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ ان کرداروں کی مجرمانہ خاموشی اور اپنے آلہ کاروں کے زریعے یہ پیغام کہ بھٹہ بندش میں فائدہ ہے اس بات پر مہر ثبت کر رہی ہے....محکمے اور ان کرداروں کے پاس اب کوئی دلیل نہیں بچی کہ بھٹہ بندش کیوں ہو رہی ہے.موسم بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہے.اسموگ نا ہونے کے برابر پے..ایئر انڈیکس کے حوالے سے بعض آلودہ شہر بھی ترجیحات میں شامل نہیں. ہم انہیں انکے بہروپ سمیت پہچان چکے ہیں باقی نا سمجھنے والے دوست بھی تب انہیں جان جائیں گے جب یہ تنگی_سانس کی بدولت اپنے چہروں سے ماسک اتاریں گیں......!محمد عمران سیال...!

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

*بھادوں کی حیرت انگیز معلومات

*****اختلاف *****محترم بھٹہ مالکان اسلام علیکم.....!اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..اس تحریر میں میری مخاطبیت نادان دوستوں سے ہے، ہیں یہ ہمارے اپنے ہی لیکن اغیار کی غلطیوں کا سہرہ اپنے سر لینے پر تلے ہوئے ہیں..بہرحال ایک دوست نے ہمیں مہر و نیازی صاحب کی خوبیوں سے روشناس کرایا تو دل میں احساس ہوا کہ اتنے مہربان لوگوں کو ہم غلط کیوں کہہ رہے ہیں اچانک سے اس دوست کی تحریر ختم ہوئی اور میرے دل کے بجائے دماغ نے سوچنا شروع کیا ،جذباتیت کے بجائے بھٹہ انڈسٹری کا مفاد میرے سامنے آیا اور میں نے باتوں کے بجائے حقیقت ڈھونڈنے کی کوشش کی آئیے آپکو بھی حقیقتوں سے آگاہ کریں.....1987 میں جب بھٹہ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی تو نیازی صاحب ہی صدر سلیکٹ کیے گئے اور واقعتا ً 1994 اور 2011 میں ایسوسی ایشن نے بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کا تحفظ کیا ان مواقع پر بھٹہ مالکان کا تمام تر تعاون نیازی صاحب کے ساتھ رہا..اجتماعی کوششوں سے بھٹہ مالکان نے ریلیف حاصل کیا...ان موقعوں پر نیازی صاحب نے نڈر طریقے سے بھٹہ انڈسٹری کا دفاع کیا اور بھٹہ مالکان کی طرف سے انکے ہاتھ ہمیشہ مضبوط کیے گئے کسی بھی طرح کی مخالفت دیکھنے کو نہیں ملی..ایسی ہی جرات کی ضرورت 2017 میں بھی پیش آئی لیکن اب کی بار نیازی صاحب نے سرنڈر کر دیا اور بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کو پس_پشت ڈال دیا..کیسے؟ یہ بھی آپکو بتاتے ہیں..>اب کی بار وہی سیلز ٹیکس حکومت پھر سے نافذ کرنا چاہتی تھی جسے پہلے دو بار نیازی صاحب بھٹہ مالکان کی سپورٹ کی وجہ سے ختم کرا چکے تھے..لیکن اس بار نیازی صاحب نے بھٹہ انڈسٹری کی آواز بننے کے بجائے حکومت کا ساتھ دینا مناسب سمجھا..اب کی بار انہوں نے بھٹہ مالکان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ سیلز ٹیکس دینا چاہیے ..اگر نیازی صاحب ہی کی بات مان لی جائے تو پہلے انہوں نے دو بار اس ضروری امر کو کیوں منسوخ کرایا؟سچ تو یہ ہے کہ نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا..>اب کی بار نیازی صاحب و ہمنوا بھٹہ مالکان کو گمراہ بھی کرنے لگے..زگ زیگ کے معاملے پر پہلے کہا گیا کہ یہ ٹیکنالوجی حکومت کی طرف سے زبردستی لائی گئی ہے پھر نمبر بنانے کے لیے کہا گیا کہ ہم خود لائے.. بھٹہ مالکان کی مزاحمت کی وجہ سے پھر بیانیہ بدلا اور کہا کہ حکومت کا پریشر ہے اور زگ زیگ ہی لگانے پڑیں گے پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح آپ لوگوں نے سیلز ٹیکس پر حکومتوں کی مخالفت کر کے اپنے مطالبات منوائے اب ایسا کیوں نا ہو سکا..اب آپ نے بھٹہ انڈسٹری کے مفاد کی خاطر حکومتی پریشر کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟سچ تو یہ ہے نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا...آی سی آئی موڈ کی کہانی الگ سے ہے اس کے لیے اور وقت مقرر کر لیں گے..>سوشل سیکیورٹی ،علیحدہ سے انکم ٹیکس،چائلڈ لیبر ایکٹ کے علاوہ بہت سے مسائل کا پچھلے چند سالوں سے بھٹہ مالکان سامنہ کر رہے ہیں لیکن آپ حکومتی پریشر کا نام دے کر چپ ہی رہے.ان چند سالوں میں بھٹہ مالکان کا امیج بری طرح متاثر ہوا اور بھٹہ انڈسٹری کاروباری مرکز سے زیادہ بلیک میلرز کا نام اختیار کر گئی...ان نامسائد حالات میں امجد خان جگوال نے کمان سنمبھالی اور بھٹہ انڈسٹری کو بچانے کا عزم کیا..>اسی امجد خان جگوال نے آپ کی خاموشی کے باوجود سیلز ٹیکس ختم کرایا اور حکومتی احکامات و پریشر کے باوجود ابھی تک نافذالعمل نہیں کرایا جا سکا..>اسی جگوال نے زگ زیگ کے معاملے پر حکومتی پریشر کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور ابھی تک کر رہا ہے.زگ زیگ سے متعلق اسی جگوال کے مطالبات کو اب آپ اپنے مطالبات بنا کر پیش کر رہے ہیں.>اسی جگوال نے سالوں سے چلے آنے والے کوئلہ کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کیے..کوئلہ والوں کے ساتھ انہی مذاکرات کی بنیاد پر انہیں ایجنٹ کہا گیا لیکن جگوال کول مائنز اونرز سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہا..الغرض بھٹہ انڈسٹری کی کمان اب نڈر لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو انڈسٹری کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں حکومتی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے..اب بات کرتے ہیں نیازی صاحب کے ایسوسی ایشن کے لیے کڑوڑوں روپے خرچ کرنے کی..سوال یہ ہے نیازی صاحب نے کڑوڑوں روپے کہاں خرچ کیے؟کیا وہ ایسوسی ایشن کے ایونٹس منعقد کرتے رہے ہیں ایسا تو سالوں میں ایک بار ہوتا ہے..!کیا انہوں نے ایسوسی ایشن کے نام پر کوئی فلاحی مرکز کھول رکھا ہے کوئی ہسپتال یا سکول؟کیا مختلف تحریکوں میں خرچے گئے ہیں؟ نہیں تحریکوں میں تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شریک ہوئے...!تو پھر کڑوڑوں روپے کہاں خرچے گئے جبکہ ایسوسی ایشن کی سالانہ آمدنی کروڑوں میں ہے...!کیسے؟ جان لیتے ہیں....پاکستان کے ٹوٹل 154 اضلاع ہیں..ہم صرف پنجاب کی بات کرتے ہیں..پنجاب کے ٹوٹل 36 اضلاع ہیں...مہر صاحب کے آڈیو بیان کے مطابق ہر ضلعی صدر ہر ماہ 50000 روپےفنڈ ایسوسی ایشن کو جمع کرائے ورنہ اسے اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا..اس حساب سے 36*50000=1800000تقریباً اٹھارہ لاکھ ماہانہ بنتے ہیں جبکہ 1800000*12=21600000سالانہ تقریبا٘ دو کروڑ سولہ لاکھ بنتے ہیں..یہ صرف پنجاب کا فنڈ ہے مہر صاحب کے مطابق...باقی صوبوں کا علاوہ....آخر یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں ..کوئی فلاحی کام ہی کر لیں ان پیسوں سے...آئندہ سے نیازی صاحب کے کروڑوں روپے لگانے کی بات نا کیجیے گا حساب کتاب دینا پڑ جائے گا...یہ تو تھے قومی حقائق اب اپنے نادان دوستوں کو مقامی حقائق سے آگاہ کرتے ہیں...پہلے بھی کئی بار بتا چکے ہیں ایک بار اور صیح...نذر خان صاحب ملتان میں مہر ونیازی صاحب کے نمائندے ہیں(بھٹہ مالکان کے نہیں)..ملتان کی تحصیل جلالپور کے 100 سے زائد بٹھے ہیں..ان میں سے بیشتر مالکان نذر خان صاحب کے نام سے بھی واقف نہیں صدر ماننا تو دور..تحصیل شجاعباد کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے..ان دونوں تحصیلوں کے ڈھائی سو بھٹہ مالکان میں نذر خان صاحب کا ایک بھی نام لیوا نہیں..باقی اوورآل ملتان میں تقریباً چار سو بھٹہ مالکان میں سے پندرہ سے سولہ بھٹہ مالکان نذر صاحب کے ہمنوا ہیں باقی تناسب آپ خود دیکھ لیں..باقی پورا ملتان عمر فاروق صاحب کی قیادت پر متفق ہے....باقی نادان دوستو کو مہر و نیازی صاحب نے اس لیے آگے کیا ہوا ہے کہ باقی ملک میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ انکی تو اپنے شہر میں گرفت نہیں..باقی حقائق میں نے آپ کے سامنے رکھ دیے.. اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..محمد عمران سیال....!