زگ ‏زیگ ٹیکنالوجی ہی بہتر آپشن ہے


🌹🌹بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلنا🌹🌹
السلام علیکم جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ دنیا تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے اور ہر شعبے میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں نظر آرہی ہیں اس وقت دنیا،میں ہر چیز کے متبادل کو لانے میں بھی بڑی تیزی آئی ہے عرصہ دراز سے اجاداری سسٹم کو لیپٹا جارہاہے ہر چیز کا متبادل لایاجارہاہے مگر چونکہ ہم ہمیشہ محنت وتبدیلی سے کنارہ کشی کرنے کو ترجیح دیتے آے ہیں اور حالات واقعات کو سمجھنے کے بجاے ہمیشہ سیاست کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور آنے والے خطرات کو بھی سیاست کی نذرکرتے ہیں اور بعد میں بھاری نقصان اٹھاتے ہیں جس کی واضح مثال اس وقت ہماری بھٹہ انڈسٹری کی ہی لے لیں ہمیں معلوم ہے کے ہمارے تمام پڑوسی ممالک آلودگی کے خاتمے کیلئے اور اپنی حکومتوں کے سخت ایکشن کے بعد اس وقت پرانی ٹیکنالوجی ختم کرکے زگ زیگ بلکہ اس سے بھی آگے کی ٹیکنالوجی پر جاچکے ہیں  مگر یہاں ہم کسی بھی قسم کی جدت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں چاہیے انڈسٹری ختم ہی  کیوں نہ ہوجاے دراصل جو لوگ وقت کے ساتھ فیصلے نہیں کرتے پھر وقت انکا فیصلہ کرتا ہے آنے والے حالات بتارہے ہیں کہ اگر ہم نے یہی نہ مانوں والا رویہ رکھا تو ہماری انڈسٹری کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کی چھوٹی سے مثال میں آپکو ملتان کے ڈپٹی کمنشر کی دونگا جس نے اپنے تمام ضلع کے تمام سرکاری پروجیکٹ میں کسی بھی صورت پرانی بھرائی والی اینٹ نہ خریدنے کا حکم دیا اور صرف زگ زیگ بھٹے کی اینٹ ہی استعمال کرنے کے احکامات جاری کیے مگر یہ عقل مند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے یہ صرف ملتان کی حد تک بات نہیں اگر ہم نے یہی رویہ رکھا جو ہمارا حکومت کے ساتھ چل رہا ہے اور اسی طرح حکومتی احکامات ہوا میں اڑاتے رہے اور تقریروں اور قیادت کے خلاف بیانات پر وقت ضائع کرتے رہے تو اللہ نہ کرے میں وہ منظر بھی دیکھ رہاہوں کہ حکومت فیصلہ کرلے گئی کہ مٹی سے بنی اینٹ کسی بھی پروجیکٹ کیلئے قابل قبول نہیں جبکہ ہمارا مقابلہ کرنے کیلئے اس وقت سمینٹ مافیا بہت ایکیٹو ہوچکا ہے فلائی ایش اینٹ اور دیگر نئے طریقوں سے آنے والے بلاک اور اب تو پاکستان میں کنٹریشن کے شعبے میں انتہائی سستی کورین ٹیکنالوجی بھی آگئی ہے جس کا ہم بکھرے ہوے اور ایک دوسرے کے خلاف بھٹہ مالکان کسی صورت مقابلہ نہیں کرسکتے ہمیں حالات کو دیکھنا ہے نہ کہ زگ زیگ کون لایا کس نے مسلط کرایا کس نے چندہ لیا کون ایجنٹ ہے کون غدار ہے ان باتوں سے اب ہمیں جلد از جلد باہر آنا ہوگا آپکو قیادت بار بار آگاہ کررہی ہے کہ حالات اب کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں حکومت کسی صورت پرانے بھٹے چلنے نہیں دے گی اور باقی کے حالات بھی آپکو بیان کردیئے ہیں اب بھی ہمارے پاس موقعہ ہے کہ وقت پر بدل جائیں اس سے پہلے کہ وقت ہمیں خود بدل دے آو اس انڈسٹری کی بہتری کیلئے اس ملک کی عزت کی خاطر اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر خود میں اور اپنے کاروبار میں تبدیلی لائیں خود کو حالات کے ساتھ بدلیں کام کو سیکھ سمجھ کر کریں آج آپکے پاس پنجاب کے ہرضلع میں ماڈل بھٹہ موجود ہے آپ وہاں سے سیکھ سمجھ کر اپنے بھٹوں کو جلدازجلد زگ زیگ بھرائی پر تبدیل کریں حالات کسی سے نہیں ڈھکےچھپے اگر میں یہ کہوں کہ نہیں بھٹہ مالکان کو مس گائیڈ کیا جارہاہے اور انہیں اصل حقائق پتہ نہیں تو یہ بالکل غلط ہے ہاں پہلے دو سالوں میں پتہ نہیں تھا مگر اب ہر بھٹہ مالک جان چکا ہے کہ یہ عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان ماحولیات کے حوالے سے اہم فیصلے کرچکا ہے جس پر صورت عمل درآمد کرایا جاےگا مگر اس کے باوجود حقائق سے آنکھیں چرانا ناسمجھی ہی تصور کی جاے گئی ایسوسی ایشن کبھی آپکو سبزباغ دکھا کر دھوکے میں نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی آپکے لیے من پسند بیانات دے سکتی ہیں وہ ہمیشہ وہی بات کرے گئی جو حقیقت پر مبنی ہوگی وہ ہمیشہ انڈسٹری کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرے گئی اور آپکو آنے والے حالات سے قبل از وقت آگاہ کرے گئی اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کتنے اور کس قدر سنجیدہ ہیں اپنے آپ سے اور اپنے کاروبار سے آخر میں اللہ تعالی سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے اور  اتحاد واتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرماے ،،
تحریر✒️✒️✒️
اظہرخان ملتان

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

*بھادوں کی حیرت انگیز معلومات

*****اختلاف *****محترم بھٹہ مالکان اسلام علیکم.....!اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..اس تحریر میں میری مخاطبیت نادان دوستوں سے ہے، ہیں یہ ہمارے اپنے ہی لیکن اغیار کی غلطیوں کا سہرہ اپنے سر لینے پر تلے ہوئے ہیں..بہرحال ایک دوست نے ہمیں مہر و نیازی صاحب کی خوبیوں سے روشناس کرایا تو دل میں احساس ہوا کہ اتنے مہربان لوگوں کو ہم غلط کیوں کہہ رہے ہیں اچانک سے اس دوست کی تحریر ختم ہوئی اور میرے دل کے بجائے دماغ نے سوچنا شروع کیا ،جذباتیت کے بجائے بھٹہ انڈسٹری کا مفاد میرے سامنے آیا اور میں نے باتوں کے بجائے حقیقت ڈھونڈنے کی کوشش کی آئیے آپکو بھی حقیقتوں سے آگاہ کریں.....1987 میں جب بھٹہ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی تو نیازی صاحب ہی صدر سلیکٹ کیے گئے اور واقعتا ً 1994 اور 2011 میں ایسوسی ایشن نے بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کا تحفظ کیا ان مواقع پر بھٹہ مالکان کا تمام تر تعاون نیازی صاحب کے ساتھ رہا..اجتماعی کوششوں سے بھٹہ مالکان نے ریلیف حاصل کیا...ان موقعوں پر نیازی صاحب نے نڈر طریقے سے بھٹہ انڈسٹری کا دفاع کیا اور بھٹہ مالکان کی طرف سے انکے ہاتھ ہمیشہ مضبوط کیے گئے کسی بھی طرح کی مخالفت دیکھنے کو نہیں ملی..ایسی ہی جرات کی ضرورت 2017 میں بھی پیش آئی لیکن اب کی بار نیازی صاحب نے سرنڈر کر دیا اور بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کو پس_پشت ڈال دیا..کیسے؟ یہ بھی آپکو بتاتے ہیں..>اب کی بار وہی سیلز ٹیکس حکومت پھر سے نافذ کرنا چاہتی تھی جسے پہلے دو بار نیازی صاحب بھٹہ مالکان کی سپورٹ کی وجہ سے ختم کرا چکے تھے..لیکن اس بار نیازی صاحب نے بھٹہ انڈسٹری کی آواز بننے کے بجائے حکومت کا ساتھ دینا مناسب سمجھا..اب کی بار انہوں نے بھٹہ مالکان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ سیلز ٹیکس دینا چاہیے ..اگر نیازی صاحب ہی کی بات مان لی جائے تو پہلے انہوں نے دو بار اس ضروری امر کو کیوں منسوخ کرایا؟سچ تو یہ ہے کہ نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا..>اب کی بار نیازی صاحب و ہمنوا بھٹہ مالکان کو گمراہ بھی کرنے لگے..زگ زیگ کے معاملے پر پہلے کہا گیا کہ یہ ٹیکنالوجی حکومت کی طرف سے زبردستی لائی گئی ہے پھر نمبر بنانے کے لیے کہا گیا کہ ہم خود لائے.. بھٹہ مالکان کی مزاحمت کی وجہ سے پھر بیانیہ بدلا اور کہا کہ حکومت کا پریشر ہے اور زگ زیگ ہی لگانے پڑیں گے پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح آپ لوگوں نے سیلز ٹیکس پر حکومتوں کی مخالفت کر کے اپنے مطالبات منوائے اب ایسا کیوں نا ہو سکا..اب آپ نے بھٹہ انڈسٹری کے مفاد کی خاطر حکومتی پریشر کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟سچ تو یہ ہے نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا...آی سی آئی موڈ کی کہانی الگ سے ہے اس کے لیے اور وقت مقرر کر لیں گے..>سوشل سیکیورٹی ،علیحدہ سے انکم ٹیکس،چائلڈ لیبر ایکٹ کے علاوہ بہت سے مسائل کا پچھلے چند سالوں سے بھٹہ مالکان سامنہ کر رہے ہیں لیکن آپ حکومتی پریشر کا نام دے کر چپ ہی رہے.ان چند سالوں میں بھٹہ مالکان کا امیج بری طرح متاثر ہوا اور بھٹہ انڈسٹری کاروباری مرکز سے زیادہ بلیک میلرز کا نام اختیار کر گئی...ان نامسائد حالات میں امجد خان جگوال نے کمان سنمبھالی اور بھٹہ انڈسٹری کو بچانے کا عزم کیا..>اسی امجد خان جگوال نے آپ کی خاموشی کے باوجود سیلز ٹیکس ختم کرایا اور حکومتی احکامات و پریشر کے باوجود ابھی تک نافذالعمل نہیں کرایا جا سکا..>اسی جگوال نے زگ زیگ کے معاملے پر حکومتی پریشر کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور ابھی تک کر رہا ہے.زگ زیگ سے متعلق اسی جگوال کے مطالبات کو اب آپ اپنے مطالبات بنا کر پیش کر رہے ہیں.>اسی جگوال نے سالوں سے چلے آنے والے کوئلہ کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کیے..کوئلہ والوں کے ساتھ انہی مذاکرات کی بنیاد پر انہیں ایجنٹ کہا گیا لیکن جگوال کول مائنز اونرز سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہا..الغرض بھٹہ انڈسٹری کی کمان اب نڈر لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو انڈسٹری کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں حکومتی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے..اب بات کرتے ہیں نیازی صاحب کے ایسوسی ایشن کے لیے کڑوڑوں روپے خرچ کرنے کی..سوال یہ ہے نیازی صاحب نے کڑوڑوں روپے کہاں خرچ کیے؟کیا وہ ایسوسی ایشن کے ایونٹس منعقد کرتے رہے ہیں ایسا تو سالوں میں ایک بار ہوتا ہے..!کیا انہوں نے ایسوسی ایشن کے نام پر کوئی فلاحی مرکز کھول رکھا ہے کوئی ہسپتال یا سکول؟کیا مختلف تحریکوں میں خرچے گئے ہیں؟ نہیں تحریکوں میں تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شریک ہوئے...!تو پھر کڑوڑوں روپے کہاں خرچے گئے جبکہ ایسوسی ایشن کی سالانہ آمدنی کروڑوں میں ہے...!کیسے؟ جان لیتے ہیں....پاکستان کے ٹوٹل 154 اضلاع ہیں..ہم صرف پنجاب کی بات کرتے ہیں..پنجاب کے ٹوٹل 36 اضلاع ہیں...مہر صاحب کے آڈیو بیان کے مطابق ہر ضلعی صدر ہر ماہ 50000 روپےفنڈ ایسوسی ایشن کو جمع کرائے ورنہ اسے اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا..اس حساب سے 36*50000=1800000تقریباً اٹھارہ لاکھ ماہانہ بنتے ہیں جبکہ 1800000*12=21600000سالانہ تقریبا٘ دو کروڑ سولہ لاکھ بنتے ہیں..یہ صرف پنجاب کا فنڈ ہے مہر صاحب کے مطابق...باقی صوبوں کا علاوہ....آخر یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں ..کوئی فلاحی کام ہی کر لیں ان پیسوں سے...آئندہ سے نیازی صاحب کے کروڑوں روپے لگانے کی بات نا کیجیے گا حساب کتاب دینا پڑ جائے گا...یہ تو تھے قومی حقائق اب اپنے نادان دوستوں کو مقامی حقائق سے آگاہ کرتے ہیں...پہلے بھی کئی بار بتا چکے ہیں ایک بار اور صیح...نذر خان صاحب ملتان میں مہر ونیازی صاحب کے نمائندے ہیں(بھٹہ مالکان کے نہیں)..ملتان کی تحصیل جلالپور کے 100 سے زائد بٹھے ہیں..ان میں سے بیشتر مالکان نذر خان صاحب کے نام سے بھی واقف نہیں صدر ماننا تو دور..تحصیل شجاعباد کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے..ان دونوں تحصیلوں کے ڈھائی سو بھٹہ مالکان میں نذر خان صاحب کا ایک بھی نام لیوا نہیں..باقی اوورآل ملتان میں تقریباً چار سو بھٹہ مالکان میں سے پندرہ سے سولہ بھٹہ مالکان نذر صاحب کے ہمنوا ہیں باقی تناسب آپ خود دیکھ لیں..باقی پورا ملتان عمر فاروق صاحب کی قیادت پر متفق ہے....باقی نادان دوستو کو مہر و نیازی صاحب نے اس لیے آگے کیا ہوا ہے کہ باقی ملک میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ انکی تو اپنے شہر میں گرفت نہیں..باقی حقائق میں نے آپ کے سامنے رکھ دیے.. اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..محمد عمران سیال....!