****بھٹہ انڈسٹری،سموگ اور حل****محترم بھٹہ مالکان اسلام علیکم...جنگلات جانداروں کےلیے سب سے ضروری چیزوں میں شامل ہیں.لیکن یہ اہم عنصر پھیلنے کے بجائے مذید سکڑ رہا ہے حقیقت میں جنگلات کا کٹاؤ انڈسٹریوں کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے...کسی ایک فرد کو نہیں بحیثیت قوم ہمیں کچھ کرنا ہو گا..ہم اپنی اس تحریر میں بھٹہ انڈسٹری پر زبردستی مسلط کیے جانے والے مسئلے یعنی سموگ اور اس کے تدارک پر بات کر رہے ہیں...ہم سب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر ایک دم سے حکومت بھٹہ انڈسٹری سمیت تمام انڈسٹریوں کو تباہ کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے،ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ بھٹے تو صدیوں سے چل رہے ہیں اب چند سالوں سے ماحولیات سے متعلق مسائل کا گڑھ کیسے ہو گئے؟آخر اب ہمیں گرین ہاؤس گیسز جیسی غیر ہم آہنگ چیزوں سے منسلک کر کے کیوں ڈرایا جا رہا ہے؟نئی ٹیکنالوجی کے نام پر کاروباری حضرات کا استحصال کرنے کی تیاریاں کیوں کی جا رہی ہیں؟ایسے بہت سے سوالات بھٹہ مالکان کے ذہنی راڈار میں گردش کر رہے ہیں جن کے جوابات نا محکمہ ماحولیات دینے کی زحمت کر رہا ہے اور نا ہی حکومت..لیکن ہم آنکھیں بند کر کے منزل کی جستجو میں نہیں ہمیں سب سے پہلے اپنے ماحول کو بچانا ہے اور اسکے بعد اپنے کاروبار کا تحفظ کرنا ہے ہم غیر ملکی این جی اوز اور انکے ہمنواؤں سے اپنی انڈسٹری کو تباہ نہیں کرانا چاہتے ہم ان سے اپنے ملک کی معیشت اور انڈسٹریوں کو بچانا چاہتے ہیں آئیں ہم خود سموگ کے خاتمے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے اپنے منصوبے بنائیں اور حکومت و محکمے کو نتائج کی بنیاد پر مطمئن کریں.. سموگ ہے کیا اور یہ چند سالوں سے کیونکر پیدا ہو رہا ہے؟سموگ دراصل دھویں (سموک) اور دھند (فوگ) کا ملاپ ہے .نومبر اور دسمبر کے دنوں میں جب دھند نے اپنی تہہ بنائی ہوئی ہوتی ہے تو وہ دھویں کو فضا میں معلق نہیں ہونے دیتی نتیجتاً فوگ اور سموک کے کمبینیشن سے سموگ وجود میں آتی ہے جو جانداروں کی حیات کے لیے نقصان کا باعث ہے..جاندار جب سانس لیتے ہیں تو یہی سموگ جسم کے اندر پہنچ کر مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے..سموگ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری گرین ہاوس گیسز موجود ہوتی ہیں.گرین ہاؤس گیسز کیا ہیں؟گرین ہاوس گیسز ایسی گیسز ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث ہیں اور ماحول کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں.کاربن ڈائی آکسائیڈ،سلفر مونو آکسائیڈ اور میتھین شامل ہیں.ان گیسز کے اخراج کے مختلف ذرائع ہیں.ٹرانسپورٹیشن ،بجلی کی پیداوار کے روائتی طریقے ،انڈسٹریز اور سب سے اہم انسان ...انسان کیسے آگے چل کر آپکو بتائیں گے.. کاربن ڈائی آکسائیڈ کثیر مقدار میں خارج ہونے والی گیس ہے.ٹرانسپورٹ سے نکلنے والے دھویں،کارخانوں سے نکلنے والے دھویں ،بجلی بنانے والے کارخانوں کے دھویں سے،فصلوں کی باقیات کو جلانے سے اور اہم ترین انسانوں کے سانس لینے سے کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے..مطلب کے ہمارے سانس لینے سے بھی ماحول آلودہ ہو رہا ہے تو کیا سانس پر پابندی کا انتظار رکھا جا سکتا ہے؟ہم سب جانتے ہیں کہ انسانوں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آکسیجن درخت خارج کرتے ہیں جبکہ درختوں کی اہم ترین ضروریات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہے مطلب ہم کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج کرتے ہیں جسے درخت اپنے اندر لے جاتے ہیں اور درخت اکسیجن خارج کرتے ہیں جسے ہم سانس کے زریعے اپنے اندر لے جاتے ہیں.مطلب درخت اور انسان(جاندار) ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں.تو پھر مسئلہ کہاں ہے..مسئلہ تو سادہ ترین ہے کہ ہم اپنے سانس گاڑیوں اور کارخانوں سے جتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر رہے ہیں اتنا ہمارے ملک میں درخت ہی نہیں کہ وہ اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر سکیں...آپ خود اندازہ لگائیں کہ پہلے پاکستان کے کل رقبے کا 4% جنگلات پر مشتمل تھا لیکن اب یہ سکڑ کر 2% رہ گیا ہے لیکن اس کے برعکس گاڑیوں اور کارخانوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور آبادی بڑھنے کا تناسب بھی سب کے سامنے ہے.ایسے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے والے درختوں میں کمی جبکہ بڑھانے والے عوامل میں اضافہ ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے چلنے والے بٹھے اور فیکٹریاں اسکی موجب قرار دی جا رہی ہیں جبکہ حقیقتاً درختوں کا کٹاؤ اور کمی ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ ہے.اب ہمیں کیا کرنا چاہیے..صدر بھٹہ ایسوسی ایشن امجد خان جگوال اور انکی ٹیم کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق وژن کیا ہے آئیں سمجتے ہیں..محکمہ ماحولیات سے جگوال صاحب کی جتنی بھی میٹنگز ہوئیں ان میں بھٹہ ایسوسی ایشن کی جانب سے بارہا مطالبہ کیا جاتا رہا کہ ہم پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کے بجائے ہمیں ماحول کو بہتر کرنے کا ٹاسک دیا جائے ہم یہ کیسے کریں گے یہ ہم پر چھوڑ دیا جائے ،ہم حکومت و محکمے کی زگ زیگ کی پالیسی کے برعکس اپنی پالیسی پر گامزن ہیں اور جلد اسکے دورس نتائج معاشرے پر ظاہر ہوں گے..پالیسی کے مطابق ہم اپنے بھٹہ جات پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے والی مشینوں (درختوں) کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جارہی ہے ..اگر بحیثت قوم ہم اس میں شرکت کریں تو آئندہ چند سالوں میں ہم اپنے ماحول کو بہتر کر سکیں گے.زگ زیگ سے متعلق پالیسی برقرار رہے گی کہ جو دوست اپنی مرضی سے زگ زیگ لگانا چاہے لگائے لیکن اسے زبردستی نقصان کرنے پر آمادہ نا کیا جائے کہ زگ زیگ کا ماحول کی بہتری میں کوئی کردار نہیں...آئیں ہم سب مل کر اپنے ماحول اور انڈسٹریوں کا تحفظ کریں....محمد عمران سیال..

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

***فائدہ درحقیقت نقصان****بعض اوقات پیسہ بنانے کا شوق انسان کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیتا ہے انسان اپنے مفاد سے آگے کچھ نہیں سوچ رہا ہوتا لیکن حقیقت میں اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے...بات شروع ہوتی ہے سال 2017 سے جب بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں نے سموگ کی آڑ میں اس انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ اٹھا لیا.انڈسٹری کے مجموعی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نے بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں کو ایکسپوز کر دیا..مجھے لگتا ہے قارئین کو مذید تفصیل درکار ہو گی..ہوا کچھ یوں کے سموگ نے جب حکومت کو پریشان کرنا شروع کیا تو انہوں نے باقی انڈسٹریوں کے ساتھ ساتھ بھٹہ انڈسٹری سے متعلق بھی اپنے خدشات ظاہر کرنا شروع کر دیے...اس موقع پر بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ ہم اس کے سدباب کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں..نمائندوں نے ایک ماحولیاتی تنظیم کے زریعے حکومت کو زگ زیگ بھٹوں اور ان کی افادیت سے متعلق آگاہ کیا..بس پھر کیا تھا حکومت نے زگ زیگ کو بنیاد بنا کر اس انڈسٹری سے متعلق اپنی پالیسی مرتب کی اور یہ جاننے کی کوشش تک نا کی کہ واقعی نمائندوں کے تجویز کردہ ان بھٹوں کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں..حقیقت میں زگ زیگ لانے کا مقصد یہ انڈسٹری جاگیرداروں کے حوالے کرناتھا ایسامیں کیوں کہہ رہا ہوں یہ آپکو آگے سمجھ آئے گا.. حکومت نے بھٹہ مالکان کو تمام بھٹے جلد از جلد زگ زیگ پر کنورٹ کرنے کا آرڈر دے دیا اور ایسا نا کرنے کی صورت میں سخت سے سخت نتائج کا بتایا جاتا رہا..ہر سال بھٹہ مالکان کی کچھ تعداد محکمے کے خوف سے اپنے بھٹے زگ زیگ پر کنورٹ کرتی رہی اور بیشتر کڑوڑوں کا نقصان اٹھا بیٹھے...مختصر یہ کہ محکمہ ہر سال بغیر کسی تحقیق کے زگ زیگ پر جبراً منتقلی کرانے کی کوشش میں رہا اور بھٹہ مالکان اپنا نقصان کرتے رہے..محکمے کو انڈسٹری کے نمائندوں کی بھرپور حمایت رہی..آخر کار زگ زیگ کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور امجد خان جگوال نےمحکمے کی اس پالیسی کے خلاف علم بغاوت بلندکیا.جگوال صاحب نے ہر فورم پر اس پالیسی کا مقابلہ کیا اور بھٹہ مالکان جوق در جوق ان کے قافلے میں شامل ہوتے گئے.ٹی وی انٹر ویوز،پریس ریلیز اور سوشل میڈیا کے زریعے بھرپور آگاہی مہم چلائی گئی.بھر پور محنت کے زریعے امجد خان جگوال اور انکی ٹیم محکمے کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئی کہ زگ زیگ اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ انڈسٹری کے خاتمے کی وجہ قرار پائے گا کہ ہر بھٹہ مالک اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کڑوڑوں کا نقصان برداشت کر سکے ایسا صرف وہی کر سکتے ہیں ہیں جو اربوں روپے رکھتے ہوں نتیجتاً یہ انڈسٹری جاگیرداروں کی گود میں جانے کا اندیشہ پیدا ہوا اوراسی تناظر میں زگ زیگ کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی..سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ جس بنا پر یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں لائی گئی کہ زگ زیگ بھٹے گرین ہاؤس گیسز کا کم اخراج کرتے ہیں جھوٹ ثابت ہوئی..زگ زیگ اور بی ٹے کی میں گیسز کا تقابلی جائزہ تقریباً برابر رہا...مطلب بغیر تحقیق کے عجلت میں یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں مسلط کرا کے بھٹہ مالکان اور انڈسٹری کو کڑوڑں کا نقصان پہنچایا گیا..اب اس ٹیکنالوجی کو پاکستان میں ناکام قرار دیا جا رہا ہے لیکن بھٹہ مالکان کا نقصان واپس نہیں ہو سکتا..حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ نے آرڈر دیا ہے کہ بھٹوں کو دو ماہ کے لیے بند کر دیا جائے شنید ہے کہ زگ زیگ کے مستقبل کے حوالے سے بھی ایسے فیصلے کا امکان ہے کہ یہ بھٹے کسی طور بھی پرانے بھٹوں سے ایڈوانس نہیں..یہ بات محکمے کو دیر سے سمجھ آ رہی ہے..وقتی طور پر سموگ سے نمٹنے کے لیے دو ماہ بھٹوں کو بند کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مستقبل میں کثیر تعدادمیں شجر کاری ہی اس مسئلے کا حل ہے نا کہ زگ زیگ..ایسے میں جو لوگ صرف اس لیے زگ زیگ پر منتقل ہوئے کہ پرانے بھٹے بند ہونے سے وہ بہت منافع کما لیں گے ایسے بھٹہ مالکان خسارے میں رہیں گے..بعض اوقات پیسہ بنانے کا شوق انسان کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیتا ہے انسان اپنے مفاد سے آگے کچھ نہیں سوچ رہا ہوتا لیکن حقیقت میں اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے...محمد عمران سیال..

مرکزی قیادت کا کامیاب دورہ ملتان،،، برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے مرکزی وائس چیئرمین مہرعبدالحق صاحب لاہور ڈویژن کے صدر رانا سبحان صاحب بروکس پاکستان کے کنٹری منیجر نعیم عباس شاہ صاحب 4روزہ دورہ ملتان ۔مکمل کرکے لاہور روانہ ہوگئے یہ دورہ جانوروں کی حققوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم بروکس پاکستان کے زیراہتمام پاکستان میں بھٹوں پر کام کرنے والے جانوروں کے تحفظ اور علاج معالجے پر کام کررہی ہے جو دو روز لگار تار رمادا ہوٹل ملتان میں جاری رہا پہلے روز اجلاس میں ملتان کے بھٹہ مالکان شریک ہوے اور بروکس پاکستان کے مشن کو سمجھا اور اس پر اسی دن عمل شروع کیا دوسرے دن جنوبی پنجاب کے اضلاع کے بھٹہ مالکان اجلاس میں شریک ہوے اور بروکس پاکستان کے موقف کو سمجھا اور ان کے مشن کو اپنانے کا اعادہ کیا یہ دورہ بروکس پاکستان کے ساتھ ساتھ برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے قائدین کیلئے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان سے تنظیمی اور زگ زیگ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم ثابت ہوا جہاں بروکس پاکستان کے مشن کو بھٹہ مالکان نے سمجھا وہی برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن اور اس کی افادیت کو اور زگ زیگ ٹیکنالوجی کو سیکھنے سمجھنے کیلئے قیادت کی جانب سے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان کو ہرممکن تعاون کی پیشکش کی گئی جیسے بھٹہ مالکان کی جانب سے بہت سراہا گیا اس کے علاوہ ملتان میں تنظیمی حوالے سے دورہ بھی کیے جس میں ملتان میں اظہرخان کا نئے تعمیر ہونے والے ملتان کے ماڈل زگ زیگ بھٹے کا افتتاح کیا گیا اور ملتان اور جنوبی پنجاب سے آے بھٹہ مالکان سے انکے اضلاع میں بھٹہ انڈسٹری کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی اور بہتر منصوبے زیر غور آے اس کے علاوہ شجاع آباد میں خضرخان جگوال صاحب کے ماڈل زگ زیگ بھٹے کا وزٹ کیا اور وہاں پر شجاع آباد سے بھٹہ انڈسٹری کی اہم شخصیت شجاع آباد کی پہچان انعام اللہ خان مگسی صاحب سے رات کے کھانے پر خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی اور ملتان اور اردگرنواح میں بھٹہ مالکان کے مسائل پر اہم مشاورت ہوئی اور ایک دوسرے کے تجربات سے استعفادہ حاصل کیا لہذا ہم اسے برک کلن اونرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مرکزی قیادت کا ملتان کا کامیاب دورہ قرار دیتے ہیں کہ کم وقت میں بہت زیادہ ورک کیا گیا جو قابل تحسین ہے ہم برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے قائدین اور بروکس پاکستان کے نعیم عباس شاہ صاحب کو ملتان آمد اور جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان کو تنظیمی و فلاحی آگاہی دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، منجانب،، برک کلن اونرز ایسوسی ایشن ملتان رپورٹ اظہرخان