،،جنوبی پنجاب کی بھٹہ انڈسٹری تباہی کے دہانے پر،، بھٹہ انڈسٹری گزشتہ 4 سالوں سے مختلف مسائل سے دوچار ہے ان مسائل سے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان حد درجہ تک مثاثر ہیں جبکہ اپرپنجاب کی صورتحال ان سے مختلف ہے کیونکہ وہاں 80فیصد سے زائد بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے فیصلے کو ہی حتمی فیصلہ قرار دیتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں جس کی بدولت وہاں کے بھٹہ مالکان مالی طور پر زیادہ مستحکم ہیں جبکہ اسکے برعکس جنوبی پنجاب میں یہ صورتحال قدرے مختلف ہے یہاں 40فیصد سے زائد بھٹہ مالکان وہ ہیں جو 2010 کے سیلاب کے بعد اس انڈسٹری سے منسلک ہوے اس سے قبل جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کوئی خاطرخواہ نام نہ بناسکی تھی سواے ملتان کے بلکہ اس سے قبل جنوبی پنجاب میں بھٹوں کی کچھ خاص تعداد بھی زیادہ نہیں تھی مظفرگڑھ جنوبی پنجاب کا ایسا ضلع تھا جہاں 2010ء کے بعد بہت تیزی سے کم ہی عرصہ میں بڑی تعداد میں نئے بھٹے تعمیر ہوے جس کی مثال نہیں ملتی اسی کے ساتھ ملتان کی تحصیل شجاع آباد بھی اس طرح ثابت ہوئی اور باقی اضلاع میں بھی بھٹہ انڈسٹری کو بہت تیزی سے ابھرتے دیکھا جبکہ ڈیرہ غازی خان ایک ایسا ضلع تھا جہاں بھٹہ انڈسٹری کی مارکیٹ کم ہوگئی اس کی وجہ وہاں اینٹ کی تیاری بھٹے کے بجاے آوی سسٹم آگیا مگر آج بھی بھٹے وہاں موجود ہیں اور اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوے ہیں 2010ء سے قبل جنوبی پنجاب میں ملتان کو ہی بھٹہ انڈسٹری کے حوالے سے اہمیت کا درجہ حاصل تھا جو تاحال دم توڑتا ہوا مگر موجود ہے جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کی اس قدر ترقی اور نئے لوگوں کی آمد یقیناء انڈسٹری کیلئے نیک شگون کا باعث تھی مگر جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کی اس تیزی سے عروج جہاں بہت ہی خوش آئند تھا وہی مستقبل میں بھٹہ انڈسٹری پر خطرے کے بادل منڈلانے کے بھی امکانات واضع ہونا شروع ہوگئے تھے جیسے صرف وہ ہی بھٹے مالکان محسوس کررہے تھے جو جنوبی پنجاب میں عرصہ دراز سے اس انڈسٹری سے وابستہ تھے وہ خطرہ تھا انڈسٹری میں بھٹے انڈسٹری سے ناواقف وہ لوگ جو اپنی پراپرٹی اپنی شاپس وگاڑیاں و دیگر اشیاء فروخت کرکے تین تین چار چار افراد مل کر بھٹے کے پارٹنر بنے چونکہ اس وقت انڈسٹری عروج میں تھی کم سرمایہ سے ہی کام الحمداللہ اچھا شروع ہوا آگے آگے وہ پارنٹر بھی اپنا اپنا بھٹہ تعمیر کرتے رہے اور الگ ہوتے رہے یوں محض 6سالوں میں ہی ہر ضلع میں اینٹوں کے بھٹوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ جنوبی پنجاب میں ترقیاقی کاموں کی رفتار اپرپنجاب کی نسبت بہت کم تھی جبکہ دوسری جانب آل پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن آف پاکستان جب بھی اہم ایشو پر متحد ہوتی تو پورے ملک سے جنوبی پنجاب ایسا علاقہ ہوتا تھا جو مرکزی تنظیم کے فیصلوں کی نفی کرتا اس کی وجہ لاہور سے کوئی ضدانا تعصب نہیں بلکہ ناسمجھی اور وہ نان ایکیٹو لوگ جو بھٹہ انڈسٹری سے واقف ہی نہیں تھے اور بھٹہ انڈسٹری کے عروج کے وقت میں اس میں داخل ہوے وہی لوگ ہی اس کے ذمہ دار ہیں اور یہ دن جنوبی پنجاب کے سئینر بھٹہ مالکان بہت پہلے سے جانتے تھے مرکزی ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت سے ہربات پر ناں کی طویل جنگ کے بعد پہلی بار زگ زیگ کے معاملے پر لچک دیکھائی اور بدلے میں حکومت سے انڈسٹری کیلئے زبردست مراعات لینے کے موڈ میں تھی مگر پورے پاکستان سے جنوبی پنجاب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر حکومت نے کرنی اپنی ہی مرضی تھی انہوں نے کرکے دیکھا مگر ہم نے ایسوسی ایشن کے کہنے پر کچھ نہ کیا اور حکومت سے انڈسٹری کیلئے لے جانے والے مراعات سے بھی محروم رہے آج ہماری کمزوری کا فائدہ دیکھتے ہوے ہم پر کوئلہ مافیا من مانیا کررہاہے مگر ہم بے بس ہیں ہم اس قدر بےبس ہیں کہ اپنے بھٹے کیلئے لیا جانے والا کوئلہ بھی وزن سے نہیں لے سکتے ہم اس قدر بےبس ہیں کہ جب دل کرے وہ ریٹ کوئلہ کا بڑھا دیں ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے متحد نہ ہونے کی قسم جو کھائی ہے جس کا مافیا کی جانب سے پھرپور فائدہ لیاجارہاہے مہرعبدالحق صاحب بھٹہ انڈسٹری کے ایک ذہن ترین اور انڈسٹری کے مستقبل پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں جولائی 2021 میں انہوں نے ملتان دورے کے دوران ہمیں بتایا ، ، میں جو منظر دیکھ رہا ہوں اللہ کرے ایسا نہ ہو جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان نے اگر اپنا جلد بلاک نہ بنایا تو یہ اگلے سال تک اپنے اپنے بھٹے فروخت کرنا شروع کرینگے کیونکہ جنوبی پنجاب میں کنسٹریشن کا کام بالکل زیرو ہونے والا ہے اور انہوں نے بھٹے بند کرنے نہیں جبکہ اپر پنجاب کی بھٹہ مالکان خوشحالی کی جانب بڑھیں گئے ،، انکے یہ الفاظ مجھے وقتی طور پر تو عجیب لگے مگر میرے ذہن میں نقش ہوکر رہ گئے آج 5ماہ گزر گئے ہیں آج میں واقعی دیکھ رہا ہوں جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کی ابتر صورتحال دن بدن سامنے آتی جاری ہے کیا زگ زیگ کیا سادہ بھرائی والے سب بھٹہ مالکان شدید پریشان ہیں 40فیصد سے زائد جنوبی کے بھٹے بند ہیں کوئلہ بورہ ودیگر میٹریل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ اینٹ کے نرخ انتہائی تیزی کے ساتھ کم ہوگئے ہیں صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے بھٹے والوں کی ٹرالیاں روڈوں چوکوں میں کھڑی ہیں اور گاہگ نہیں ہے ٹرالیوں کی سیل لگی ہوئی ہے نرخ دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ مزدوری اور میٹریل دن بدن اضافہ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی وہ واحد انڈسٹری جس میں مال بنانے کے میٹریل کی نرخ بڑھیں اور ضرورت کی چیز سستی ملے تو بھٹہ انڈسٹری ہی کہونگا کیونکہ چاہیے کوئلہ بورہ آسمان کو پہنچ جاے ہم نے عوامی خدمت کرنی ہے اور اینٹ کی قیمت کم سے کم کرنی ہے تاکہ جلداز جلد انڈسٹری سے انخلاء ممکن ہو، افسوس صد افسوس میری تحریر بھی شاید آپکو نہ جاگا سکے مگر اب بھی وقت ہے جنوبی پنجاب کے بھٹہ والوں جلدازجلد اپنے اپنے اجلاس طلب کرو اور بھٹوں کو بند کرنے کا اعلان کرو بلوچستان والے بھی 6ماہ بند کرکے ہم سے زیادہ منافع لے رہے ہیں کے پی کے والوں نے بھی توے مافیا کے منہ پر دے مارے ،اب وقت آگیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان جاگ جائیں یقین کریں آپ کے دوست انڈسٹری سے نکل رہے ہیں یہ انخلاء خوشی کا باعث نہیں بلکہ ہماری تباہی کا باعث ہے لہذا اب بھی وقت ہے ہمیں جلد ازجلد جنوبی پنجاب کا بلاک بناکر مستقبل میں انڈسٹری کو بچانا ہے نہ پریشان ہو لاہور سیالکوٹ فیصل آباد ننکانہ صاحب گجرات والوں نے نہیں اینٹوں پہنچانی یہاں ،انکی وہی سیل زیادہ ہے ہمیں تو بھٹہ انڈسٹری کے حوالے سے بہت اچھا علاقہ ملا ہے اپرپنجاب جتنی مرضی ہڑتال کو طول دے دیں آپکی وہاڑی کی اینٹ ہی سیالکوٹ کو پوری کردیتی ہے جبکہ ہمیں یہاں ڈیرہ غازی خان ملتان مظفرگڑھ شجاع آباد لیہ بھکر وہاڑی خانیول لودھراں بہالپور رحیم یار خان میں اپرپنجاب نے اینٹ نہیں دینی ، آپ کا ایک مضبوط بلاک ہی جنوبی پنجاب میں انڈسٹری کے مضبوط وجود کو برقرار رکھ سکتاہےمجھے امید ہے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان اس میسج کو سنجیدگی سے لینگے اور اسے شیئر بھی کرینگے اللہ تعالی ہمارے درمیان اتحاد پیدا کرے اور نفرتوں کا خاتمہ کرے ، آمیناظہرخان ،ملتان

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

***فائدہ درحقیقت نقصان****بعض اوقات پیسہ بنانے کا شوق انسان کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیتا ہے انسان اپنے مفاد سے آگے کچھ نہیں سوچ رہا ہوتا لیکن حقیقت میں اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے...بات شروع ہوتی ہے سال 2017 سے جب بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں نے سموگ کی آڑ میں اس انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ اٹھا لیا.انڈسٹری کے مجموعی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نے بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں کو ایکسپوز کر دیا..مجھے لگتا ہے قارئین کو مذید تفصیل درکار ہو گی..ہوا کچھ یوں کے سموگ نے جب حکومت کو پریشان کرنا شروع کیا تو انہوں نے باقی انڈسٹریوں کے ساتھ ساتھ بھٹہ انڈسٹری سے متعلق بھی اپنے خدشات ظاہر کرنا شروع کر دیے...اس موقع پر بھٹہ انڈسٹری کے نمائندوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ ہم اس کے سدباب کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں..نمائندوں نے ایک ماحولیاتی تنظیم کے زریعے حکومت کو زگ زیگ بھٹوں اور ان کی افادیت سے متعلق آگاہ کیا..بس پھر کیا تھا حکومت نے زگ زیگ کو بنیاد بنا کر اس انڈسٹری سے متعلق اپنی پالیسی مرتب کی اور یہ جاننے کی کوشش تک نا کی کہ واقعی نمائندوں کے تجویز کردہ ان بھٹوں کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں..حقیقت میں زگ زیگ لانے کا مقصد یہ انڈسٹری جاگیرداروں کے حوالے کرناتھا ایسامیں کیوں کہہ رہا ہوں یہ آپکو آگے سمجھ آئے گا.. حکومت نے بھٹہ مالکان کو تمام بھٹے جلد از جلد زگ زیگ پر کنورٹ کرنے کا آرڈر دے دیا اور ایسا نا کرنے کی صورت میں سخت سے سخت نتائج کا بتایا جاتا رہا..ہر سال بھٹہ مالکان کی کچھ تعداد محکمے کے خوف سے اپنے بھٹے زگ زیگ پر کنورٹ کرتی رہی اور بیشتر کڑوڑوں کا نقصان اٹھا بیٹھے...مختصر یہ کہ محکمہ ہر سال بغیر کسی تحقیق کے زگ زیگ پر جبراً منتقلی کرانے کی کوشش میں رہا اور بھٹہ مالکان اپنا نقصان کرتے رہے..محکمے کو انڈسٹری کے نمائندوں کی بھرپور حمایت رہی..آخر کار زگ زیگ کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور امجد خان جگوال نےمحکمے کی اس پالیسی کے خلاف علم بغاوت بلندکیا.جگوال صاحب نے ہر فورم پر اس پالیسی کا مقابلہ کیا اور بھٹہ مالکان جوق در جوق ان کے قافلے میں شامل ہوتے گئے.ٹی وی انٹر ویوز،پریس ریلیز اور سوشل میڈیا کے زریعے بھرپور آگاہی مہم چلائی گئی.بھر پور محنت کے زریعے امجد خان جگوال اور انکی ٹیم محکمے کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئی کہ زگ زیگ اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ انڈسٹری کے خاتمے کی وجہ قرار پائے گا کہ ہر بھٹہ مالک اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کڑوڑوں کا نقصان برداشت کر سکے ایسا صرف وہی کر سکتے ہیں ہیں جو اربوں روپے رکھتے ہوں نتیجتاً یہ انڈسٹری جاگیرداروں کی گود میں جانے کا اندیشہ پیدا ہوا اوراسی تناظر میں زگ زیگ کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی..سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ جس بنا پر یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں لائی گئی کہ زگ زیگ بھٹے گرین ہاؤس گیسز کا کم اخراج کرتے ہیں جھوٹ ثابت ہوئی..زگ زیگ اور بی ٹے کی میں گیسز کا تقابلی جائزہ تقریباً برابر رہا...مطلب بغیر تحقیق کے عجلت میں یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں مسلط کرا کے بھٹہ مالکان اور انڈسٹری کو کڑوڑں کا نقصان پہنچایا گیا..اب اس ٹیکنالوجی کو پاکستان میں ناکام قرار دیا جا رہا ہے لیکن بھٹہ مالکان کا نقصان واپس نہیں ہو سکتا..حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ نے آرڈر دیا ہے کہ بھٹوں کو دو ماہ کے لیے بند کر دیا جائے شنید ہے کہ زگ زیگ کے مستقبل کے حوالے سے بھی ایسے فیصلے کا امکان ہے کہ یہ بھٹے کسی طور بھی پرانے بھٹوں سے ایڈوانس نہیں..یہ بات محکمے کو دیر سے سمجھ آ رہی ہے..وقتی طور پر سموگ سے نمٹنے کے لیے دو ماہ بھٹوں کو بند کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مستقبل میں کثیر تعدادمیں شجر کاری ہی اس مسئلے کا حل ہے نا کہ زگ زیگ..ایسے میں جو لوگ صرف اس لیے زگ زیگ پر منتقل ہوئے کہ پرانے بھٹے بند ہونے سے وہ بہت منافع کما لیں گے ایسے بھٹہ مالکان خسارے میں رہیں گے..بعض اوقات پیسہ بنانے کا شوق انسان کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیتا ہے انسان اپنے مفاد سے آگے کچھ نہیں سوچ رہا ہوتا لیکن حقیقت میں اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے...محمد عمران سیال..

مرکزی قیادت کا کامیاب دورہ ملتان،،، برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے مرکزی وائس چیئرمین مہرعبدالحق صاحب لاہور ڈویژن کے صدر رانا سبحان صاحب بروکس پاکستان کے کنٹری منیجر نعیم عباس شاہ صاحب 4روزہ دورہ ملتان ۔مکمل کرکے لاہور روانہ ہوگئے یہ دورہ جانوروں کی حققوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم بروکس پاکستان کے زیراہتمام پاکستان میں بھٹوں پر کام کرنے والے جانوروں کے تحفظ اور علاج معالجے پر کام کررہی ہے جو دو روز لگار تار رمادا ہوٹل ملتان میں جاری رہا پہلے روز اجلاس میں ملتان کے بھٹہ مالکان شریک ہوے اور بروکس پاکستان کے مشن کو سمجھا اور اس پر اسی دن عمل شروع کیا دوسرے دن جنوبی پنجاب کے اضلاع کے بھٹہ مالکان اجلاس میں شریک ہوے اور بروکس پاکستان کے موقف کو سمجھا اور ان کے مشن کو اپنانے کا اعادہ کیا یہ دورہ بروکس پاکستان کے ساتھ ساتھ برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے قائدین کیلئے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان سے تنظیمی اور زگ زیگ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اہم ثابت ہوا جہاں بروکس پاکستان کے مشن کو بھٹہ مالکان نے سمجھا وہی برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن اور اس کی افادیت کو اور زگ زیگ ٹیکنالوجی کو سیکھنے سمجھنے کیلئے قیادت کی جانب سے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان کو ہرممکن تعاون کی پیشکش کی گئی جیسے بھٹہ مالکان کی جانب سے بہت سراہا گیا اس کے علاوہ ملتان میں تنظیمی حوالے سے دورہ بھی کیے جس میں ملتان میں اظہرخان کا نئے تعمیر ہونے والے ملتان کے ماڈل زگ زیگ بھٹے کا افتتاح کیا گیا اور ملتان اور جنوبی پنجاب سے آے بھٹہ مالکان سے انکے اضلاع میں بھٹہ انڈسٹری کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی اور بہتر منصوبے زیر غور آے اس کے علاوہ شجاع آباد میں خضرخان جگوال صاحب کے ماڈل زگ زیگ بھٹے کا وزٹ کیا اور وہاں پر شجاع آباد سے بھٹہ انڈسٹری کی اہم شخصیت شجاع آباد کی پہچان انعام اللہ خان مگسی صاحب سے رات کے کھانے پر خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی اور ملتان اور اردگرنواح میں بھٹہ مالکان کے مسائل پر اہم مشاورت ہوئی اور ایک دوسرے کے تجربات سے استعفادہ حاصل کیا لہذا ہم اسے برک کلن اونرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مرکزی قیادت کا ملتان کا کامیاب دورہ قرار دیتے ہیں کہ کم وقت میں بہت زیادہ ورک کیا گیا جو قابل تحسین ہے ہم برک کلن اونرز ایسوسی ایشن کے قائدین اور بروکس پاکستان کے نعیم عباس شاہ صاحب کو ملتان آمد اور جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان کو تنظیمی و فلاحی آگاہی دینے پر شکریہ ادا کرتے ہیں، منجانب،، برک کلن اونرز ایسوسی ایشن ملتان رپورٹ اظہرخان