،،جنوبی پنجاب کی بھٹہ انڈسٹری تباہی کے دہانے پر،، بھٹہ انڈسٹری گزشتہ 4 سالوں سے مختلف مسائل سے دوچار ہے ان مسائل سے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان حد درجہ تک مثاثر ہیں جبکہ اپرپنجاب کی صورتحال ان سے مختلف ہے کیونکہ وہاں 80فیصد سے زائد بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے فیصلے کو ہی حتمی فیصلہ قرار دیتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں جس کی بدولت وہاں کے بھٹہ مالکان مالی طور پر زیادہ مستحکم ہیں جبکہ اسکے برعکس جنوبی پنجاب میں یہ صورتحال قدرے مختلف ہے یہاں 40فیصد سے زائد بھٹہ مالکان وہ ہیں جو 2010 کے سیلاب کے بعد اس انڈسٹری سے منسلک ہوے اس سے قبل جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کوئی خاطرخواہ نام نہ بناسکی تھی سواے ملتان کے بلکہ اس سے قبل جنوبی پنجاب میں بھٹوں کی کچھ خاص تعداد بھی زیادہ نہیں تھی مظفرگڑھ جنوبی پنجاب کا ایسا ضلع تھا جہاں 2010ء کے بعد بہت تیزی سے کم ہی عرصہ میں بڑی تعداد میں نئے بھٹے تعمیر ہوے جس کی مثال نہیں ملتی اسی کے ساتھ ملتان کی تحصیل شجاع آباد بھی اس طرح ثابت ہوئی اور باقی اضلاع میں بھی بھٹہ انڈسٹری کو بہت تیزی سے ابھرتے دیکھا جبکہ ڈیرہ غازی خان ایک ایسا ضلع تھا جہاں بھٹہ انڈسٹری کی مارکیٹ کم ہوگئی اس کی وجہ وہاں اینٹ کی تیاری بھٹے کے بجاے آوی سسٹم آگیا مگر آج بھی بھٹے وہاں موجود ہیں اور اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوے ہیں 2010ء سے قبل جنوبی پنجاب میں ملتان کو ہی بھٹہ انڈسٹری کے حوالے سے اہمیت کا درجہ حاصل تھا جو تاحال دم توڑتا ہوا مگر موجود ہے جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کی اس قدر ترقی اور نئے لوگوں کی آمد یقیناء انڈسٹری کیلئے نیک شگون کا باعث تھی مگر جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کی اس تیزی سے عروج جہاں بہت ہی خوش آئند تھا وہی مستقبل میں بھٹہ انڈسٹری پر خطرے کے بادل منڈلانے کے بھی امکانات واضع ہونا شروع ہوگئے تھے جیسے صرف وہ ہی بھٹے مالکان محسوس کررہے تھے جو جنوبی پنجاب میں عرصہ دراز سے اس انڈسٹری سے وابستہ تھے وہ خطرہ تھا انڈسٹری میں بھٹے انڈسٹری سے ناواقف وہ لوگ جو اپنی پراپرٹی اپنی شاپس وگاڑیاں و دیگر اشیاء فروخت کرکے تین تین چار چار افراد مل کر بھٹے کے پارٹنر بنے چونکہ اس وقت انڈسٹری عروج میں تھی کم سرمایہ سے ہی کام الحمداللہ اچھا شروع ہوا آگے آگے وہ پارنٹر بھی اپنا اپنا بھٹہ تعمیر کرتے رہے اور الگ ہوتے رہے یوں محض 6سالوں میں ہی ہر ضلع میں اینٹوں کے بھٹوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ جنوبی پنجاب میں ترقیاقی کاموں کی رفتار اپرپنجاب کی نسبت بہت کم تھی جبکہ دوسری جانب آل پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن آف پاکستان جب بھی اہم ایشو پر متحد ہوتی تو پورے ملک سے جنوبی پنجاب ایسا علاقہ ہوتا تھا جو مرکزی تنظیم کے فیصلوں کی نفی کرتا اس کی وجہ لاہور سے کوئی ضدانا تعصب نہیں بلکہ ناسمجھی اور وہ نان ایکیٹو لوگ جو بھٹہ انڈسٹری سے واقف ہی نہیں تھے اور بھٹہ انڈسٹری کے عروج کے وقت میں اس میں داخل ہوے وہی لوگ ہی اس کے ذمہ دار ہیں اور یہ دن جنوبی پنجاب کے سئینر بھٹہ مالکان بہت پہلے سے جانتے تھے مرکزی ایسوسی ایشن کی جانب سے حکومت سے ہربات پر ناں کی طویل جنگ کے بعد پہلی بار زگ زیگ کے معاملے پر لچک دیکھائی اور بدلے میں حکومت سے انڈسٹری کیلئے زبردست مراعات لینے کے موڈ میں تھی مگر پورے پاکستان سے جنوبی پنجاب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر حکومت نے کرنی اپنی ہی مرضی تھی انہوں نے کرکے دیکھا مگر ہم نے ایسوسی ایشن کے کہنے پر کچھ نہ کیا اور حکومت سے انڈسٹری کیلئے لے جانے والے مراعات سے بھی محروم رہے آج ہماری کمزوری کا فائدہ دیکھتے ہوے ہم پر کوئلہ مافیا من مانیا کررہاہے مگر ہم بے بس ہیں ہم اس قدر بےبس ہیں کہ اپنے بھٹے کیلئے لیا جانے والا کوئلہ بھی وزن سے نہیں لے سکتے ہم اس قدر بےبس ہیں کہ جب دل کرے وہ ریٹ کوئلہ کا بڑھا دیں ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے متحد نہ ہونے کی قسم جو کھائی ہے جس کا مافیا کی جانب سے پھرپور فائدہ لیاجارہاہے مہرعبدالحق صاحب بھٹہ انڈسٹری کے ایک ذہن ترین اور انڈسٹری کے مستقبل پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں جولائی 2021 میں انہوں نے ملتان دورے کے دوران ہمیں بتایا ، ، میں جو منظر دیکھ رہا ہوں اللہ کرے ایسا نہ ہو جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان نے اگر اپنا جلد بلاک نہ بنایا تو یہ اگلے سال تک اپنے اپنے بھٹے فروخت کرنا شروع کرینگے کیونکہ جنوبی پنجاب میں کنسٹریشن کا کام بالکل زیرو ہونے والا ہے اور انہوں نے بھٹے بند کرنے نہیں جبکہ اپر پنجاب کی بھٹہ مالکان خوشحالی کی جانب بڑھیں گئے ،، انکے یہ الفاظ مجھے وقتی طور پر تو عجیب لگے مگر میرے ذہن میں نقش ہوکر رہ گئے آج 5ماہ گزر گئے ہیں آج میں واقعی دیکھ رہا ہوں جنوبی پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری کی ابتر صورتحال دن بدن سامنے آتی جاری ہے کیا زگ زیگ کیا سادہ بھرائی والے سب بھٹہ مالکان شدید پریشان ہیں 40فیصد سے زائد جنوبی کے بھٹے بند ہیں کوئلہ بورہ ودیگر میٹریل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ اینٹ کے نرخ انتہائی تیزی کے ساتھ کم ہوگئے ہیں صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے بھٹے والوں کی ٹرالیاں روڈوں چوکوں میں کھڑی ہیں اور گاہگ نہیں ہے ٹرالیوں کی سیل لگی ہوئی ہے نرخ دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ مزدوری اور میٹریل دن بدن اضافہ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی وہ واحد انڈسٹری جس میں مال بنانے کے میٹریل کی نرخ بڑھیں اور ضرورت کی چیز سستی ملے تو بھٹہ انڈسٹری ہی کہونگا کیونکہ چاہیے کوئلہ بورہ آسمان کو پہنچ جاے ہم نے عوامی خدمت کرنی ہے اور اینٹ کی قیمت کم سے کم کرنی ہے تاکہ جلداز جلد انڈسٹری سے انخلاء ممکن ہو، افسوس صد افسوس میری تحریر بھی شاید آپکو نہ جاگا سکے مگر اب بھی وقت ہے جنوبی پنجاب کے بھٹہ والوں جلدازجلد اپنے اپنے اجلاس طلب کرو اور بھٹوں کو بند کرنے کا اعلان کرو بلوچستان والے بھی 6ماہ بند کرکے ہم سے زیادہ منافع لے رہے ہیں کے پی کے والوں نے بھی توے مافیا کے منہ پر دے مارے ،اب وقت آگیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان جاگ جائیں یقین کریں آپ کے دوست انڈسٹری سے نکل رہے ہیں یہ انخلاء خوشی کا باعث نہیں بلکہ ہماری تباہی کا باعث ہے لہذا اب بھی وقت ہے ہمیں جلد ازجلد جنوبی پنجاب کا بلاک بناکر مستقبل میں انڈسٹری کو بچانا ہے نہ پریشان ہو لاہور سیالکوٹ فیصل آباد ننکانہ صاحب گجرات والوں نے نہیں اینٹوں پہنچانی یہاں ،انکی وہی سیل زیادہ ہے ہمیں تو بھٹہ انڈسٹری کے حوالے سے بہت اچھا علاقہ ملا ہے اپرپنجاب جتنی مرضی ہڑتال کو طول دے دیں آپکی وہاڑی کی اینٹ ہی سیالکوٹ کو پوری کردیتی ہے جبکہ ہمیں یہاں ڈیرہ غازی خان ملتان مظفرگڑھ شجاع آباد لیہ بھکر وہاڑی خانیول لودھراں بہالپور رحیم یار خان میں اپرپنجاب نے اینٹ نہیں دینی ، آپ کا ایک مضبوط بلاک ہی جنوبی پنجاب میں انڈسٹری کے مضبوط وجود کو برقرار رکھ سکتاہےمجھے امید ہے جنوبی پنجاب کے بھٹہ مالکان اس میسج کو سنجیدگی سے لینگے اور اسے شیئر بھی کرینگے اللہ تعالی ہمارے درمیان اتحاد پیدا کرے اور نفرتوں کا خاتمہ کرے ، آمیناظہرخان ،ملتان

Comments

Popular posts from this blog

پیارے برک کلن مالکان! آج ، میں آپ کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اینٹ بنانا قدرے مشکل اور بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان کی بہت سی دیگر صنعتوں سے بھی آسان ہے۔ یہ خاص طور پر سچ ہے اگر آپ نیا زگ زگ طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے فرق معلوم کرنے کے لئے پرانے اور زیگ زگ طریق کار کا موازنہ کریں۔ روایتی طریقہ میں ، اسٹیکنگ دو کچی اینٹوں پر کی جاتی ہے۔ جبکہ زیگ زگ بھٹہ دیوار کی طرح رنگا ہوا ہے۔ پرانے طریقہ کار میں ستون کا پورا وزن صرف دو اینٹوں پر ہے۔ اگر ایک اینٹ ٹوٹ جاتی تو سارا ستون بیٹھ جاتا۔ زیگ زگ اسٹیکنگ میں صرف 40 ڈگری درجہ حرارت سے نیچے کی لکیر کا رخ تبدیل کرنا ہوتا ہے ، جو روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہے۔ جبکہ پرانے طریقہ کار میں ، مزدور کو 80 ڈگری سنٹی گریڈ کے سکشن ہول میں داخل ہونا پڑا ، جہاں کارکنوں کو لکڑی کے جوتےے پہنائے گئے ہوتے تھے۔ پرانے بھٹے نے آس پاس کی تمام آبادی کو آلودہ کردیا ، جلایوں کے لباس کاربن دھواں اور دیگر گیسوں سے کالے ہوگئے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یہ زہریلی گیسیں انسانوں ، جانوروں اور کھیتوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ زیگ زگ 30 سے ​​35٪ کم کوئلہ اور دیگر ایندھن استعمال کرتا ہے ، جس سے لوگوں کی عمر اور آپ کی جیب کا سائز بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 ملین ٹن کوئلہ بھٹوں سے خرچ ہوتا ہے۔ زیگ زیگ کوئلے کے حجم کو 6 ملین سے 7 ملین ٹن سالانہ تک کم کرتا ہے ، جس سے انفرادی یا قومی سطح پر بھی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ، لکڑی اور آگ جلانے والے دیگر سامان کو بھی تناسب سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ دل کے مکمل اطمینان کے ساتھ زیگ زگ کو مکمل طور پر شفٹ کروں۔ ہماری آئندہ نسلوں کو دیکھنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے ، جو صرف زیگ زگ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں اپنے کام کرنے کی جگہ پر صحت اور حفاظت کے گیجٹس بھی متعارف کروانا چاہئے۔ ہم نے اپنے بھٹوں پر خطرے والے عوامل اور خطرات کو کم کرنے کے لئے ایک بچاؤ اور تکنیکی کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم اپنی تجاویز اس کمیٹی کو ارسال کریں کہ ہم بھٹوں میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کو کس طرح کم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ، ناخوشگوار حادثات شرمناک اور جعلی این جی اوز کے ذریعہ پھیل جاتے ہیں تاکہ ہماری برادری کو بدنام کیا جاسکے۔ لہذا ، ہمیں جلد از جلد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش ہم متاثرہ مزدوروں کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کریں۔ میں بھی اس ضمن میں آپ کی تجاویز سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ بانڈڈ لیبر اور چائلڈ لیبر معاشرتی برائیاں ہیں۔ ہم اپنے ملک سے چلڈرن لیبر ، بندہ مزدوری ، آلودگی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ نام نہاد این جی اوز ، اپنے ذاتی مفادات کے تحت ، دنیا میں پہلے ہی ہمیں بدنام کر چکی ہیں۔ میں نے بار بار حکومت ، آئی ایل او ، ہیومن ریسورس کارکنوں ، وزارت محنت اور دیگر آزاد مبصرین کو حقائق کی تلاش کرنے والی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی دعوت دی ہے ، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں ، تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جاسکے اور ہمارے ساتھ غیر منصفانہ پروپیگنڈہ کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور میڈیا - مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے کے بجائے ، انہیں زمینی حقائق کا مشاہدہ کرنے آنا چاہئے جو بالکل مختلف ہیں۔ ہم ایسی کسی بھی کمیٹی کے ساتھ پورے دل سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ ڈونر ایجنسیوں ، حکومت ، اور آئی این جی اوز کو مکمل طور پر ان لعنتوں سے نجات دلانے کے لئے ہماری سہولت کے لئے آنا چاہئے۔تحریر ،، محمد شعیب خان نیازی چیئرمین (بی کے او اے پی)

*بھادوں کی حیرت انگیز معلومات

*****اختلاف *****محترم بھٹہ مالکان اسلام علیکم.....!اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..اس تحریر میں میری مخاطبیت نادان دوستوں سے ہے، ہیں یہ ہمارے اپنے ہی لیکن اغیار کی غلطیوں کا سہرہ اپنے سر لینے پر تلے ہوئے ہیں..بہرحال ایک دوست نے ہمیں مہر و نیازی صاحب کی خوبیوں سے روشناس کرایا تو دل میں احساس ہوا کہ اتنے مہربان لوگوں کو ہم غلط کیوں کہہ رہے ہیں اچانک سے اس دوست کی تحریر ختم ہوئی اور میرے دل کے بجائے دماغ نے سوچنا شروع کیا ،جذباتیت کے بجائے بھٹہ انڈسٹری کا مفاد میرے سامنے آیا اور میں نے باتوں کے بجائے حقیقت ڈھونڈنے کی کوشش کی آئیے آپکو بھی حقیقتوں سے آگاہ کریں.....1987 میں جب بھٹہ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی تو نیازی صاحب ہی صدر سلیکٹ کیے گئے اور واقعتا ً 1994 اور 2011 میں ایسوسی ایشن نے بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کا تحفظ کیا ان مواقع پر بھٹہ مالکان کا تمام تر تعاون نیازی صاحب کے ساتھ رہا..اجتماعی کوششوں سے بھٹہ مالکان نے ریلیف حاصل کیا...ان موقعوں پر نیازی صاحب نے نڈر طریقے سے بھٹہ انڈسٹری کا دفاع کیا اور بھٹہ مالکان کی طرف سے انکے ہاتھ ہمیشہ مضبوط کیے گئے کسی بھی طرح کی مخالفت دیکھنے کو نہیں ملی..ایسی ہی جرات کی ضرورت 2017 میں بھی پیش آئی لیکن اب کی بار نیازی صاحب نے سرنڈر کر دیا اور بھٹہ انڈسٹری کے مفادات کو پس_پشت ڈال دیا..کیسے؟ یہ بھی آپکو بتاتے ہیں..>اب کی بار وہی سیلز ٹیکس حکومت پھر سے نافذ کرنا چاہتی تھی جسے پہلے دو بار نیازی صاحب بھٹہ مالکان کی سپورٹ کی وجہ سے ختم کرا چکے تھے..لیکن اس بار نیازی صاحب نے بھٹہ انڈسٹری کی آواز بننے کے بجائے حکومت کا ساتھ دینا مناسب سمجھا..اب کی بار انہوں نے بھٹہ مالکان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ سیلز ٹیکس دینا چاہیے ..اگر نیازی صاحب ہی کی بات مان لی جائے تو پہلے انہوں نے دو بار اس ضروری امر کو کیوں منسوخ کرایا؟سچ تو یہ ہے کہ نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا..>اب کی بار نیازی صاحب و ہمنوا بھٹہ مالکان کو گمراہ بھی کرنے لگے..زگ زیگ کے معاملے پر پہلے کہا گیا کہ یہ ٹیکنالوجی حکومت کی طرف سے زبردستی لائی گئی ہے پھر نمبر بنانے کے لیے کہا گیا کہ ہم خود لائے.. بھٹہ مالکان کی مزاحمت کی وجہ سے پھر بیانیہ بدلا اور کہا کہ حکومت کا پریشر ہے اور زگ زیگ ہی لگانے پڑیں گے پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح آپ لوگوں نے سیلز ٹیکس پر حکومتوں کی مخالفت کر کے اپنے مطالبات منوائے اب ایسا کیوں نا ہو سکا..اب آپ نے بھٹہ انڈسٹری کے مفاد کی خاطر حکومتی پریشر کا مقابلہ کیوں نہیں کیا؟سچ تو یہ ہے نیازی صاحب نے اس بار سرنڈر کر دیا...آی سی آئی موڈ کی کہانی الگ سے ہے اس کے لیے اور وقت مقرر کر لیں گے..>سوشل سیکیورٹی ،علیحدہ سے انکم ٹیکس،چائلڈ لیبر ایکٹ کے علاوہ بہت سے مسائل کا پچھلے چند سالوں سے بھٹہ مالکان سامنہ کر رہے ہیں لیکن آپ حکومتی پریشر کا نام دے کر چپ ہی رہے.ان چند سالوں میں بھٹہ مالکان کا امیج بری طرح متاثر ہوا اور بھٹہ انڈسٹری کاروباری مرکز سے زیادہ بلیک میلرز کا نام اختیار کر گئی...ان نامسائد حالات میں امجد خان جگوال نے کمان سنمبھالی اور بھٹہ انڈسٹری کو بچانے کا عزم کیا..>اسی امجد خان جگوال نے آپ کی خاموشی کے باوجود سیلز ٹیکس ختم کرایا اور حکومتی احکامات و پریشر کے باوجود ابھی تک نافذالعمل نہیں کرایا جا سکا..>اسی جگوال نے زگ زیگ کے معاملے پر حکومتی پریشر کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا اور ابھی تک کر رہا ہے.زگ زیگ سے متعلق اسی جگوال کے مطالبات کو اب آپ اپنے مطالبات بنا کر پیش کر رہے ہیں.>اسی جگوال نے سالوں سے چلے آنے والے کوئلہ کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کیے..کوئلہ والوں کے ساتھ انہی مذاکرات کی بنیاد پر انہیں ایجنٹ کہا گیا لیکن جگوال کول مائنز اونرز سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہا..الغرض بھٹہ انڈسٹری کی کمان اب نڈر لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو انڈسٹری کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں حکومتی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے..اب بات کرتے ہیں نیازی صاحب کے ایسوسی ایشن کے لیے کڑوڑوں روپے خرچ کرنے کی..سوال یہ ہے نیازی صاحب نے کڑوڑوں روپے کہاں خرچ کیے؟کیا وہ ایسوسی ایشن کے ایونٹس منعقد کرتے رہے ہیں ایسا تو سالوں میں ایک بار ہوتا ہے..!کیا انہوں نے ایسوسی ایشن کے نام پر کوئی فلاحی مرکز کھول رکھا ہے کوئی ہسپتال یا سکول؟کیا مختلف تحریکوں میں خرچے گئے ہیں؟ نہیں تحریکوں میں تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شریک ہوئے...!تو پھر کڑوڑوں روپے کہاں خرچے گئے جبکہ ایسوسی ایشن کی سالانہ آمدنی کروڑوں میں ہے...!کیسے؟ جان لیتے ہیں....پاکستان کے ٹوٹل 154 اضلاع ہیں..ہم صرف پنجاب کی بات کرتے ہیں..پنجاب کے ٹوٹل 36 اضلاع ہیں...مہر صاحب کے آڈیو بیان کے مطابق ہر ضلعی صدر ہر ماہ 50000 روپےفنڈ ایسوسی ایشن کو جمع کرائے ورنہ اسے اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا..اس حساب سے 36*50000=1800000تقریباً اٹھارہ لاکھ ماہانہ بنتے ہیں جبکہ 1800000*12=21600000سالانہ تقریبا٘ دو کروڑ سولہ لاکھ بنتے ہیں..یہ صرف پنجاب کا فنڈ ہے مہر صاحب کے مطابق...باقی صوبوں کا علاوہ....آخر یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں ..کوئی فلاحی کام ہی کر لیں ان پیسوں سے...آئندہ سے نیازی صاحب کے کروڑوں روپے لگانے کی بات نا کیجیے گا حساب کتاب دینا پڑ جائے گا...یہ تو تھے قومی حقائق اب اپنے نادان دوستوں کو مقامی حقائق سے آگاہ کرتے ہیں...پہلے بھی کئی بار بتا چکے ہیں ایک بار اور صیح...نذر خان صاحب ملتان میں مہر ونیازی صاحب کے نمائندے ہیں(بھٹہ مالکان کے نہیں)..ملتان کی تحصیل جلالپور کے 100 سے زائد بٹھے ہیں..ان میں سے بیشتر مالکان نذر خان صاحب کے نام سے بھی واقف نہیں صدر ماننا تو دور..تحصیل شجاعباد کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے..ان دونوں تحصیلوں کے ڈھائی سو بھٹہ مالکان میں نذر خان صاحب کا ایک بھی نام لیوا نہیں..باقی اوورآل ملتان میں تقریباً چار سو بھٹہ مالکان میں سے پندرہ سے سولہ بھٹہ مالکان نذر صاحب کے ہمنوا ہیں باقی تناسب آپ خود دیکھ لیں..باقی پورا ملتان عمر فاروق صاحب کی قیادت پر متفق ہے....باقی نادان دوستو کو مہر و نیازی صاحب نے اس لیے آگے کیا ہوا ہے کہ باقی ملک میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ انکی تو اپنے شہر میں گرفت نہیں..باقی حقائق میں نے آپ کے سامنے رکھ دیے.. اختلاف کسی سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں بلکہ نظریاتی ہے...ہم اپنے موقف کو دلیل کے ساتھ بیان کر کے نادان دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انکا لہجہ چاہے جیسا بھی ہو..محمد عمران سیال....!